رسائی کے لنکس

پاک امریکہ کشیدگی کی وجہ سخت گیر موقف


پاکستان کی جانب سے نیٹو سپلائی لائنز کی بحالی میں تاخیر امریکی موقف میں سختی کا سبب بنی ہے اور اس کا اظہار جمعرات کو امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان کی دفاعی اُمور سے متعلق کمیٹی کے منظور کردہ مجوزہ بل سے بھی ہوتا ہے جس میں صدر براک اوباما کی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ جب تک نیٹو کو رسد کی ترسیل کا راستہ نہیں کھولا جاتا پاکستان کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر تجارت اور 90 فیصد امریکی امداد روک دی جائے۔

امریکہ اور پاکستان دوطرفہ سفارتی تعلقات میں کشیدگی کم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن بات چیت میں فی الحال کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے کیونکہ فریقین اپنے اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔

حکومتِ پاکستان نے تعلقات کی مکمل بحالی کو پارلیمان کے وضع کردہ ’’رہنما اصولوں‘‘ پرعمل درآمد سے مشروط کر رکھا ہے جن میں سلالہ چوکی پر نیٹو کے فضائی حملے میں 24 فوجیوں کی ہلاکت پر امریکی معافی اور پاکستانی سر زمین پر ڈرون حملوں کی بندش کے مطالبات سرِ فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی حکام مذاکرات میں نیٹو افواج کے لیے رسد کے قافلوں پر بھاری محصولات کا تقاضا بھی کر رہے ہیں۔

سلالہ حملے میں 24 پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے تھے
سلالہ حملے میں 24 پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے تھے

امریکی اور پاکستانی عہدے داروں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی حکام واضح کر چکے ہیں کہ صدر براک اوباما کی انتظامیہ نہ تو سلالہ حملے پر معافی مانگے گی اور نہ ہی ڈرون حملے بند کیے جائیں گے جب کہ نیٹو قافلوں پر بھاری محصولات کے مطالبہ پر بھی بات چیت مشکلات سے دوچار ہے۔ ایک امریکی سفارت کار کے بقول ’’ہم مناسب محصولات ادا کرنے سے گریزاں نہیں‘‘۔

سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ 15 اپریل کو کابل میں حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کی پُرتشدد کارروائیوں کے بعد امریکی حکام نے سلالہ حملے پر معافی مانگنے کے بارے میں اپنا موقف سخت کرتے ہوئے اس امکان کو کلی طور پر رد کر دیا ہے۔

امریکی حکام کا ماننا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ کی حمایت حاصل ہے اور سابق امریکی جنرل مائیک ملن نے گزشتہ سال اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے پہلے کانگریس کے سامنے ایک بیان میں اس کا کھل کر اظہار بھی کیا تھا۔

پاک افغان سرحد پر نیٹو رسد سے لدے ٹرک
پاک افغان سرحد پر نیٹو رسد سے لدے ٹرک

پاکستان کی جانب سے نیٹو سپلائی لائنز کی بحالی میں تاخیرامریکی موقف میں سختی کا سبب بنی ہے اور اس کا اظہار جمعرات کو امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان کی دفاعی اُمور سے متعلق کمیٹی کے منظور کردہ مجوزہ بل سے بھی ہوتا ہے جس میں صدر براک اوباما کی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ جب تک نیٹو کو رسد کی ترسیل کا راستہ نہیں کھولا جاتا پاکستان کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر تجارت اور 90 فیصد امریکی امداد روک دی جائے۔

امریکہ میں پاکستان مخالف جذبات کے پیشِ نظر عمومی تاثر یہی ہے کہ کانگریس اس بل کو کثرت رائے سے منظور کر لے گی۔

لیکن پاکستانی اراکین پارلیمان نے کانگریس میں ہونے والی اس پیش رفت پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اس پر کڑی تنقید کی ہے۔

سینیٹر مشاہد حسین
سینیٹر مشاہد حسین

حکمران اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر مشاہد حسین کہتے ہیں کہ سلالہ پر امریکی معافی کے موقف پر پاکستان کو ڈٹے رہنا ہوگا کیونکہ اس پر ملک میں مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ ان کے خیال میں امریکہ میں صدارتی انتخابات پاکستان پر اس دباؤ کی وجہ بن رہے ہیں۔

مشاہد حسین کے بقول اگر پاکستان شکاگو میں 20 مئی کو نیٹو کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا تو ’’کوئی آفت نہیں آئے گی‘‘ کیونکہ پاکستان نے بون کانفرنس کا بھی بائیکاٹ کیا تھا۔

’’اس کا زیادہ نقصان امریکہ کو ہو گا کیونکہ پاکستان کے بغیر افغانستان سے انخلاء کا اُس کا منصوبہ مشکلات کا شکار ہوگا۔‘‘

تاہم پارلیمان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی ایاز امیر کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ دونوں ہی دوطرفہ تعلقات کی موجودہ افسوس ناک صورت حال کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کی جانب سے نیٹو سپلائی لائنز بند کرنے کا انتہائی اقدام اور پھر بھارت کے حالیہ دورے کے دوران امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن کے پاکستان مخالف بیانات کی وجہ سے معاملات سنگین نوعیت اختیار کر چکے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن

’’وہی زبان (جو کلنٹن کے بیانات میں استعمال ہوئی) ساری کی ساری اب کانگریشنل ایڈ بل میں، جو اگلے سال کی ہے، اُس میں ڈال دی گئی ہے اور یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس اُسے پاس بھی کر لے گی۔ تو یہ خواہ مخواہ ہم نے مسئلے کو الجھا دیا ہے اور اس میں دونوں ملکوں نے کردار ادا کیا ہے۔‘‘

ایاز امیر کا خیال ہے کہ کشیدگی کم کرنے کے لیے پاکستان کو اپنے موقف پر پسپائی اختیار کرنی ہوگی۔

’’ہمارے پاس سب سے بڑا ہتھیار نیٹو کی سپلائی بند کرنا تھا، وہ ہتھیار ہم نے استعمال کر لیا۔ تو ہم نے اپنی راہیں مسدود کر لی ہیں اور ہم پر لچک دیکھانے کے لیے دباؤ زیادہ ہوگا۔ پارلیمنٹ کا بھی کردار کوئی زیادہ اچھا نہیں رہا۔ ہم مصنوعی رویوں کا اظہار اور سیاسی تقاریر اور خواہ مخواہ کا غازی بننے میںزیادہ مشغول رہے اور مسئلے کی سنگینی کا ہم صحیح طرح ادراک حاصل نہیں کرسکے۔‘‘

پاکستانی پارلیمان نے ڈروں حملوں کی بندش کا مطالبہ کیا ہے
پاکستانی پارلیمان نے ڈروں حملوں کی بندش کا مطالبہ کیا ہے

عوامی نیشنل پارٹی، جو مرکز میں پیپلز پارٹی کی اہم اتحادی اور خیبر پختون خواہ میں برسراقتدار جماعت ہے، کے سینیٹر زاہد خان نےبھی امریکی کانگریس میں پاکستان کی امداد کی کٹوتی سمیت دیگر مطالبات کے بل پر تنقید کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پارلیمان میں ملک و قوم کے مفاد میں حق کو استعمال کیا گیا ہے جسے مدِنظر رکھنا ضروری ہے۔

’’ہر معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیئے۔ ہمیں امداد (کی فراہمی) بند کرنا یا نیٹو سپلائی سے اسے منسلک کرنا یہ ان کا حق ہے لیکن ہمیں بھی تو کوئی راستہ دیکھا دے کہ ہم اس (پارلیمان کی سفارشات) پر کیسے عمل درآمد کرسکتے ہیں جس سے ہمارے دونوں ملکوں کے تعلقات بحال ہوں اور دنیا کےساتھ بھی ہمارے روابط اچھے ہوں۔‘‘

XS
SM
MD
LG