رسائی کے لنکس

دہشت گردی کے خلاف جنگ: قبائلی لشکروں کے 1500سے زائد راہنما ہلاک ہوچکےہیں


دہشت گردی کے خلاف جنگ: قبائلی لشکروں کے 1500سے زائد راہنما ہلاک ہوچکےہیں
دہشت گردی کے خلاف جنگ: قبائلی لشکروں کے 1500سے زائد راہنما ہلاک ہوچکےہیں

اِس جنگ ميں جہاں معصوم شہري ، فوجي اور انتہا پسند ہلاک ہوتے ہيں وہاں قبائلی علاقوں ميں امن کمیٹی کے بے شمار راہنما بھي ہلاک کر دیے گئے ہيں۔ قبائلی عمائدین کو حکومت کا حامی اور طالبان مخالف سمجھا جاتا ہے

پاکستان ميں دہشتگردي اور اس کے خلاف جنگ کے باعث اب تک ہزاروں لوگ لقمہ ٴاجل بن چکے ہيں۔ ہلاک ہونے والوں ميں سے بيشتر افراد کا تعلق يا تو خيبر پختونخواہ يا پھر شورش زدہ قبائلي علاقوں سے ہے۔

اِس جنگ ميں جہاں معصوم شہري ، فوجي اور انتہا پسند ہلاک ہوتے ہيں وہاں قبائلی علاقوں ميں امن کمیٹی کے بے شمار راہنما بھي ہلاک کر دیے گئے ہيں ۔ امن کمیٹی يا لشکروں کے يہ راہنما، حکومت کے حامی اور طالبان مخالف لوگ تصور کيے جاتے ہيں۔

فاٹا علاقے سے تعلق رکھنے والے ايک مقامي صحافی ، مکرم خان نے ’وائس آف امريکہ‘ کو ايک انٹرويو ميں بتايا کہ لشکروں کے سربراہان کو ہدف بنا کر قتل کرنے کا سلسلہ 2003ء میں جنوبي وزيرستان سے شروع ہوا، جہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق،

500سے زائد قبائلی راہنما ہلاک کيے جا چکے ہيں۔

مکرم خان کے مطابق، امن لشکروں کے راہنماؤں کي ہلاکتوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ فاٹا کے پہلے ہلاک ہونے والے قبائلی راہنما کمانڈر ملا نظير تھے، جن کی سربراہي ميں اس لشکر کي تشکيل کا مقصد باہر سے آنے والے تاجک اور ازبک جنگجوؤں کو علاقے سے نکالنا تھا ۔ کچھ عرصے بعد لشکر پر حکومت کے ليے جاسوسی کرنے کے الزام ميں راہنما ملا نظير کو ہلاک کر ديا گيا ۔

مقامي تجزيہ نگاروں اور صحافيوں کے مطابق ، ٹارگٹ کلنگ کے شکار ان قبائلی راہنماؤں کے اعداد و شمار يا رجسٹريشن کے حوالے سے حکومتی سطح پر کوئی ريکارڈ موجود نہيں ہے۔

مکرم خان کا کہنا ہے کہ امن کميٹی کے يہ راہنما ان علاقوں ميں انتہاپسندوں کے خلاف اور علاقے ميں امن کے قيام کے لیے کوشاں ہيں جہاں پاکستاني فوجيوں کي رسائي نہ ہونے کے برابر ہے ۔ مکرم خان دعويٰ کرتے ہيں کہ ان لشکروں کي ذمہ دارياں پاکستاني فوجيوں سے زيادہ ہيں۔ تاہم، حکومت کي طرف سے اُن کے تحفظ کے لیے کوئي اقدامات نہيں کيے گئے ہيں۔

ايک سوال کے جواب ميں ، مکرم خان کا کہنا تھا کہ طالبان کي طرف سے امن کميٹيوں کے سربراہان کوہدف بنا کر قتل کرنے کے باوجود ، فاٹا کے بيشتر حصوں ميں طالبان کے خلاف لشکروں کی تشکيل کا سلسلہ اب بھي جاری ہے۔انہوں نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2014ء میں علاقے سے فوجي انخلا کے بعد ، افغانستان کي طرح ، پاکستان کے قبائلی علاقوں ميں طالبان اور مختلف لشکروں کے مابين لڑا ئی ، سول جنگ کي شکل اختيار کر سکتی ہے۔

دوسری جانب فاٹا کے سيکرٹري ، طارق حيات نے مقامی صحافيوں اور تجزيہ نگاروں کے خيالات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ حکومتي سطح پر ان ہلاک ہونے والے قبائلی راہنماؤں کا نہ صرف اعداد و شمار موجود ہے، بلکہ حکومتي وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے انکے خاندان والوں کے تحفظ کے ليے اقدامات بھي کيے گئے ہيں ۔ طارق حيات کے مطابق حکومتي اعداد و شمار کے مطابق قبائلي علاقوں ميں گزشتہ چار سالوں میں1500قبائلی راہنما يا امن لشکروں کے سربراہ ہلاک کيے جا چکے ہيں ۔ ان راہنماوں کا تعلق کسي خاص ايجنسي سے نہيں ہے، تاہم، اِن ميں بيشتر کا تعلق شمالي وزيرستان سے ہے۔

طارق حيات نے مزيد کہا کہ کہ اِن رہنماوٴں کي ہلاکتوں کي شرح ميں کمي کے لیے ضروري ہے کہ يہ راہنمااور لشکر کے ديگر ارکان حکومت کي طرف سے جاري کردہ ہدايات اور مشوروں پر عمل کريں۔

XS
SM
MD
LG