رسائی کے لنکس

نصاب میں فوری تبدیلی کی ضرورت پر زور


نصاب میں فوری تبدیلی کی ضرورت پر زور
نصاب میں فوری تبدیلی کی ضرورت پر زور

شدت پسندانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی:معاشرے میں قوتِ برداشت پروان چڑھانے کے لیے نا صرف نصاب میں تبدیلیاں لانی ہوں گی، بلکہ مسجد ومحراب کو بھی حکومتی دائرہٴ کار میں شامل کرنا ہوگا۔ پھر یہ کہ ملک کے اسکولوں اور جامعات کے نصاب میں غلط اور غیرضروری مندرجات کی جگہ نئے خیالات کو شامل کرنا ہوگا: تجزیہ کار

سوات کی ’گلوبل پیس کونسل‘ نامی تنظیم کے سربراہ، ضیاٴ الدین یوسفزئی کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کو ملکی سطح پر پروگرام شروع کرنے چاہئیں اور اِس ضمن میں کسی دباؤ میں نہیں آنا چاہیئے، خواہ یہ دباؤ پارلیمنٹ کے اندر سے ہی کیوں نہ ہو۔

اُنھوں نے یہ بات جمعرات کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں کی۔

یاد رہے کہ سوات میں چند برس قبل عسکریت پسندوں نےاپنی جڑیں مضبوط کرلی تھیں مگر پاکستانی فوج کی کارروائی کے بعد نہ صرف اِس علاقے کو دہشت گردوں سے پاک قرار دیا جاتا ہے بلکہ پاکستان کی فوج عسکریت پسندوں کی فکر سےمتاثرہ افراد کی ذہنی اورفکری تربیت اور اُنھیں معاشرے کا پُرامن اور فعال شہری بنانے کے لیےصباؤن اورمشعل نامی ادارے چلا رہی ہے۔

ضیاٴ الدین یوسفزئی نے کہا کہ یقینی طور پر تبدیلی آسکتی ہے، لیکن اِس کے لیےسیاسی عزم ناگزیر ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ معاشرے میں قوتِ برداشت پروان چڑھانے کے لیے نا صرف نصاب میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں بلکہ مسجدومحراب کو بھی حکومتی دائرہٴ کار میں شامل کرنا ہوگا۔ توجہ دلاتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ سب سے پہلے ہمیں ملک کے اسکولوں اور جامعات کے نصاب میں غلط اور غیر ضروری مندرجات کی جگہ نئے خیالات کو شامل کرنا ہوگا ۔

اُن کے بقول، ہمارے نصاب میں وہ موضوعات اور کتابیں شامل ہوں جِن میں ہماری نئی نسل کو برداشت ، جمہوری اقدار، ایک دوسرے کو سمجھنے ، عقائد اور مسلک کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ، مسجدوں اور مدروں کو سرکاری تحویل میں لینا ہوگا۔ اُن لوگوں کو اِس پیشے سے منسلک نہیں ہونا چاہیئے جو کم تعلیم یافتہ ہیں۔

پشاور یونیورسٹی سےوابستہ پروفیسراعجازخان کا کہنا ہےکہ 80کی دہائی میں فوجی حکومت کے دور میں جہاد کو ایک خاص مقصد کےطور پر فروغ دینے کے لیے نصاب کا حصہ بنایا گیا۔ اُن کے بقول، نصاب میں اصلاح کے ذریعے معاشرے کو شدت پسندی سے چھٹکارا دلایا جا سکتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ غربت اور جہالت تشدد کا ایک سبب ضرور ہیں مگر کُلی وجہ نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کراچی جیسے شہر میں، جہاں آج بھی درجنوں افراد کو ہلاک کر دیا گیا ہے ، تشدد نظر نہ آتا ، کہ وہاں باقی ملک کی بنسبت لوگ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں اور روزگار کے ذرائع بھی موجود ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ملک کے سیاسی، سماجی اور عدالتی نظام پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی ممتاز ماہرِ تعلیم اور سابق وزیر، پروفیسر انیتا غلام علی کا کہنا تھا کہ ملک سے شدت پسندی کے خاتمے کے لیے نوجوان قیادت اور تجربہ کار اساتذة کو کام میں لانا چاہیئے۔ اُنھوں نے کراچی میں جاری حالیہ تشدد کو ’سماجی ناانصافی‘ کا سبب قرار دیا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ حکومتِ وقت کو ملک سے شدت پسندی کے خاتمے کے لیے سیاسی مصلحتوں سے ماوراٴ ہوکر قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG