اسلام آباد —
پشاور شہر میں عیسائیوں کی عبادت گاہ پر دو مہلک خود کش بم حملے رواں ماہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں شدت پسندوں کی دوسری بڑی کارروائی ہے۔ اس سے پہلے عسکریت پسند دیر میں ایک فوجی قافلے پر حملہ کرکے ایک میجر جنرل سمیت تین اہلکاروں کو ہلاک کر چکے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے دہشت گردی سے نمٹنے سے متعلق کوئی واضح حکمت عملی نا ہونے کے باعث ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں۔
حزب اختلاف کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے قانون ساز زاہد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی اور وفاقی حکومت کے مفاہمتی رویے نے نا صرف شدت پسندوں کو ایسی کارروائیاں کرنے کی ہمت دی ہے بلکہ اس سے دہشت گردی کے خلاف سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کے حوصلوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
’’آپ دہشت گردوں کو بھائی کہتے ہیں تو سیکورٹی فورسز کیوں درد لیں گی اور کیوں ان کا مقابلہ کریں گی۔ اگر پولیٹیکل یقین دہانی نا ہو تو آپ کے سیکورٹی ادارے وہ ذمہ داری یا خدمت انجام نہیں دے سکتے جو حکومت نے اس کے ذمے لگائی ہو۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان مذاکرات پر بھی بدستور ابہام پایا جاتا ہے۔
’’سو دن کے بعد بھی یہ نہیں معلوم کہ بات چیت ہورہی ہے یا نہیں۔ طالبان کہتے ہیں کہ ہم سے رابطہ نہیں ہوا جبکہ حکومت کہتی ہے مذاکرات ہورہے ہیں۔ ہم نے تو اس لیے حمایت کی کہ کل یہ نا کہیں کہ ہم (حکومت) حل کرنا چاہتے تھے مگر انہوں نے رکاوٹ ڈالی۔ ہم نے کہا تھا کہ ان (شدت پسندوں) کے اپنے مفادات ہیں۔ یہ وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک گروپ ہے ہی نہیں۔‘‘
چرچ پر حملے کے بعد ملک کے مختلف شہروں بشمول اسلام آباد، لاہور، کراچی میں احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے اور ہر سطح پر اس کی شدید مذمت کی گئی۔
وفاقی حکومت میں شامل جمیعت علماء اسلام (ف) کے رہنما مولانا غفور حیدری نے پشاور میں ہونے حملے کو وحشیانہ اور غیر اسلامی قرار دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرت سے ہی دہشت گردی کا حل ممکن ہے۔
’’طالبان کی صفوں میں یقیناً ایسے لوگ ہیں جو نہیں چاہتے یا ان کا طالبان یا ان گروپس سے تعلق نہیں جو مصالحت چاہتے ہیں۔ مگر مذاکرات کے لیے جب بیٹھیں گے تو ان لوگوں کی نشاندہی بھی ہو جائے گی۔‘‘
سینئیر تجزیہ نگار رستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ ان حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شدت پسندوں کا پلڑا بھاری ہے۔
’’کل جماعتی کانفرنس کے بعد انہیں ایک کوارڈینیٹر کا طے کرنا تھا اور اس نے اپنا رستہ طے کرنا تھا مگر ایسا نا ہوا۔ اے پی سی ہوئی مگر بات ہوا میں ہی لٹکتی رہی اور انہیں (شدت پسندوں) کو یہ پیغام ملا کہ شاید یہ بھی قوت حاصل کرنے کے لیے کررہے ہیں۔‘‘
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق مذاکرات سے پہلے شدت پسندوں کی طرف سے اپنے قیدیوں کی رہائی اور حکومت کی طرف سے جنگ بندی کے مطالبات کیے گئے ہیں۔
حال ہی میں خیبر پختوخواہ حکومت کی طرف سے وادی سوات سے فوج کے انخلاء کا اعلان کیا گیا۔ مگر پشاور ہائی کورٹ کی حکم پر صوبائی حکومت نے اس پر عمل در آمد روک دیا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک 40 ہزار پاکستانی اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں اور حال ہی میں کل جماعتی کانفرنس میں سیاسی جماتیں حکومت کو اختیار دے چکی ہیں کہ وہ قیام امن کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات کریں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے دہشت گردی سے نمٹنے سے متعلق کوئی واضح حکمت عملی نا ہونے کے باعث ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں۔
حزب اختلاف کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے قانون ساز زاہد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی اور وفاقی حکومت کے مفاہمتی رویے نے نا صرف شدت پسندوں کو ایسی کارروائیاں کرنے کی ہمت دی ہے بلکہ اس سے دہشت گردی کے خلاف سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کے حوصلوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
’’آپ دہشت گردوں کو بھائی کہتے ہیں تو سیکورٹی فورسز کیوں درد لیں گی اور کیوں ان کا مقابلہ کریں گی۔ اگر پولیٹیکل یقین دہانی نا ہو تو آپ کے سیکورٹی ادارے وہ ذمہ داری یا خدمت انجام نہیں دے سکتے جو حکومت نے اس کے ذمے لگائی ہو۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان مذاکرات پر بھی بدستور ابہام پایا جاتا ہے۔
’’سو دن کے بعد بھی یہ نہیں معلوم کہ بات چیت ہورہی ہے یا نہیں۔ طالبان کہتے ہیں کہ ہم سے رابطہ نہیں ہوا جبکہ حکومت کہتی ہے مذاکرات ہورہے ہیں۔ ہم نے تو اس لیے حمایت کی کہ کل یہ نا کہیں کہ ہم (حکومت) حل کرنا چاہتے تھے مگر انہوں نے رکاوٹ ڈالی۔ ہم نے کہا تھا کہ ان (شدت پسندوں) کے اپنے مفادات ہیں۔ یہ وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک گروپ ہے ہی نہیں۔‘‘
چرچ پر حملے کے بعد ملک کے مختلف شہروں بشمول اسلام آباد، لاہور، کراچی میں احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے اور ہر سطح پر اس کی شدید مذمت کی گئی۔
وفاقی حکومت میں شامل جمیعت علماء اسلام (ف) کے رہنما مولانا غفور حیدری نے پشاور میں ہونے حملے کو وحشیانہ اور غیر اسلامی قرار دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرت سے ہی دہشت گردی کا حل ممکن ہے۔
’’طالبان کی صفوں میں یقیناً ایسے لوگ ہیں جو نہیں چاہتے یا ان کا طالبان یا ان گروپس سے تعلق نہیں جو مصالحت چاہتے ہیں۔ مگر مذاکرات کے لیے جب بیٹھیں گے تو ان لوگوں کی نشاندہی بھی ہو جائے گی۔‘‘
سینئیر تجزیہ نگار رستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ ان حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شدت پسندوں کا پلڑا بھاری ہے۔
’’کل جماعتی کانفرنس کے بعد انہیں ایک کوارڈینیٹر کا طے کرنا تھا اور اس نے اپنا رستہ طے کرنا تھا مگر ایسا نا ہوا۔ اے پی سی ہوئی مگر بات ہوا میں ہی لٹکتی رہی اور انہیں (شدت پسندوں) کو یہ پیغام ملا کہ شاید یہ بھی قوت حاصل کرنے کے لیے کررہے ہیں۔‘‘
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق مذاکرات سے پہلے شدت پسندوں کی طرف سے اپنے قیدیوں کی رہائی اور حکومت کی طرف سے جنگ بندی کے مطالبات کیے گئے ہیں۔
حال ہی میں خیبر پختوخواہ حکومت کی طرف سے وادی سوات سے فوج کے انخلاء کا اعلان کیا گیا۔ مگر پشاور ہائی کورٹ کی حکم پر صوبائی حکومت نے اس پر عمل در آمد روک دیا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک 40 ہزار پاکستانی اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں اور حال ہی میں کل جماعتی کانفرنس میں سیاسی جماتیں حکومت کو اختیار دے چکی ہیں کہ وہ قیام امن کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات کریں۔