اسلام آباد —
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کی نئی پالیسی تیار کر لی گئی ہے جسے 20 جنوری کو کابینہ کے خصوصی اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
وفاقی دارالحکومت میں ہفتہ کو تربیت مکمل کرنے والے پولیس افسران کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں شرکت کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں چودھری نثار کا کہنا تھا کہ نئی پالیسی کا مقصد پاکستان کو محفوظ بنانا ہے۔
’’اس پالیسی کے تحت جو پیکج ہم حکومت کے سامنے رکھ رہے ہیں، وہ اٹھائیس ارب روپے کا ہے جس کے ذریعے سکیورٹی ایجنسیوں کو زیادہ مضبوط کریں گے۔ چاہے مذاکرات کرنے ہیں یا کوئی آپشن ہے ہمیں زیادہ مضبوط ہونا ہے۔‘‘
چوہدری نثار نے کہا کہ امریکہ پر ستمبر 2001ء میں ہوئے حملوں میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا لیکن اُن کے بقول نائن الیون کے بعد دنیا اب محفوظ جب کہ پاکستان غیر محفوظ ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ طالبان کے خلاف کارروائی یا مذاکرات میں پیش رفت کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کا فیصلہ کل جماعتی کانفرنس کے بعد کیا گیا تھا اور اس میں تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کی مشاورت شامل تھی۔
انھوں نے اعتراف کیا کہ ’طالبان کے ساتھ مذاکرات اور ان کے خلاف کارروائی دونوں مشکل اقدامات ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی وجہ سے ان پر خاصی تنقید کی جا رہی ہے تاہم اُنھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ مختلف گروہوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے اور امید ہے کہ اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ پاکستان کو ایک ایسی جنگ کا سامنا ہے جس میں دشمن ظاہر نہیں ہے بلکہ چھپا ہوا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ دشمن سکیورٹی فورسز اور عوام کو نشانہ بنا رہا ہے۔
’’ہمارے سامنے جو دشمن ہے اُن کے پاس جدید اسلحہ اور آلات ہیں اُن کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے پاس بھی جدید اسلحہ ہو۔‘‘
حال ہی میں وفاقی وزیر داخلہ اور بعض دیگر وزراء کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات کی پیشکش سے انکار کرنے والے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ جس کے بعد بعض سیاسی جماعتوں خصوصی حزب مخالف کی ایک بڑی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے حکومت پر تنقید کی گئی۔
وفاقی دارالحکومت میں ہفتہ کو تربیت مکمل کرنے والے پولیس افسران کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں شرکت کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں چودھری نثار کا کہنا تھا کہ نئی پالیسی کا مقصد پاکستان کو محفوظ بنانا ہے۔
’’اس پالیسی کے تحت جو پیکج ہم حکومت کے سامنے رکھ رہے ہیں، وہ اٹھائیس ارب روپے کا ہے جس کے ذریعے سکیورٹی ایجنسیوں کو زیادہ مضبوط کریں گے۔ چاہے مذاکرات کرنے ہیں یا کوئی آپشن ہے ہمیں زیادہ مضبوط ہونا ہے۔‘‘
چوہدری نثار نے کہا کہ امریکہ پر ستمبر 2001ء میں ہوئے حملوں میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا لیکن اُن کے بقول نائن الیون کے بعد دنیا اب محفوظ جب کہ پاکستان غیر محفوظ ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ طالبان کے خلاف کارروائی یا مذاکرات میں پیش رفت کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کا فیصلہ کل جماعتی کانفرنس کے بعد کیا گیا تھا اور اس میں تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کی مشاورت شامل تھی۔
انھوں نے اعتراف کیا کہ ’طالبان کے ساتھ مذاکرات اور ان کے خلاف کارروائی دونوں مشکل اقدامات ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی وجہ سے ان پر خاصی تنقید کی جا رہی ہے تاہم اُنھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ مختلف گروہوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے اور امید ہے کہ اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ پاکستان کو ایک ایسی جنگ کا سامنا ہے جس میں دشمن ظاہر نہیں ہے بلکہ چھپا ہوا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ دشمن سکیورٹی فورسز اور عوام کو نشانہ بنا رہا ہے۔
’’ہمارے سامنے جو دشمن ہے اُن کے پاس جدید اسلحہ اور آلات ہیں اُن کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے پاس بھی جدید اسلحہ ہو۔‘‘
حال ہی میں وفاقی وزیر داخلہ اور بعض دیگر وزراء کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات کی پیشکش سے انکار کرنے والے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ جس کے بعد بعض سیاسی جماعتوں خصوصی حزب مخالف کی ایک بڑی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے حکومت پر تنقید کی گئی۔