اسلام آباد —
مذہبی و سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی۔ س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ نواز شریف انتظامیہ کی طرف سے انہیں شدت پسندوں سے مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنے کا ’ٹاسک‘ دیا گیا ہے۔
انھوں نے یہ بات وزیراعظم سے منگل کو ملاقات کے بعد کہی جس میں ان کے مطابق ملک میں دہشت گردی کے مسئلے اور شدت پسندوں سے مذاکرات سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔
ملاقات کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مولانا سمیع الحق نے بتایا کہ وہ شدت پسندوں کو مذاکرات شروع کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ جلد شدت پسندوں سے رابطہ کرنے کی کوششیں شروع کر دی جائیں گی۔
تاہم جمیعت کے رہنما کا کہنا تھا کہ یہ کس طرح ہوگا ’’اس کا خاکہ ابھی ان کے ذہن میں نہیں‘‘َ۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری ایک مختصر بیان میں کہا گیا کہ ملاقات میں ’’اہم قومی معاملات‘‘ پر بات چیت ہوئی۔
مولانا سمیع الحق کی وزیراعظم سے یہ نشت گزشتہ ہفتے ان کے اس بیان کے بعد سامنے آئی جس میں جمیعت کے رہنما نے کہا تھا کہ عسکریت پسند پاکستان کے آئین کو تسلیم کرتے ہیں اور بات چیت کے عمل کے آغاز سے پہلے انہیں حکومت سے تحفظ کی یقین دہانی چاہیئے۔
ان کے مطابق ایک گھنٹے سے زائد دورانیے کی بات چیت میں وزیراعظم کو مذکرات نا شروع ہونے سے متعلق مشکلات اور قبائلی علاقوں میں چھپے عسکریت پسندوں کے تحفظات سے آگاہ کیا گیا۔
سمیع الحق کا کہنا تھا کہ وزیراعظم سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مذاکرات کے دوران امریکہ سے ڈرون حملے نا کرنے کی یقین دہانی لیں جو اس عمل کے آغاز اور کامیابی کی ضامن ثابت ہو سکتی ہے۔
’’اگر ہمارے مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو فائدہ امریکہ کو بھی ہو گا۔ افغانستان میں اس کے لیے راہیں آسان ہو جائیں گی۔ وہ بھی وہاں مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔ ہم سب کی اپیل یہ ہے کہ امریکہ کی مشاورت سے ہم یہ عمل شروع کریں تاکہ وہ راستے مٰیں سبوتاژ نا ہوں۔‘‘
نومبر کے اوائل میں شمالی وزیرستان میں ایک مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ سے منسلک پاکستانی طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود مارا گیا تھا جس پر حکومت کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ اس سے عسکریت پسندوں سے مجوزہ مذاکرات ’سبوتاژ‘ ہوئے ہیں۔
جے یو آئی (س) کے رہنما کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں کے مخصوص عدالتی نظام میں شدت پسندوں کی خواہش کے مطابق ترمیم سے بھی معاملات بڑی حد تک بہتر ہو سکتے ہیں۔
’’اگر کم از کم ہم ان کے علاقوں میں کہہ دیں کہ شریعت کے مطابق عدالتی فیصلے کرو۔ آپ کو آزادی ہے کیونکہ اب بھی وہاں پاکستانی عدالتیں اور نظام نہیں ہے تو پورے ملک میں امن ہو جائے گا۔ تو اس میں کیا مضحکہ خیز ہے۔‘‘
تاہم بعض مبصرین کہتے ہیں کہ اس طرح کی حکمت عملی کے سنگین نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ سیکورٹی امور کے ماہر اسد منیر کا کہنا ہے۔
’’انہوں نے کبھی نہیں بولا کہ ہم ساؤتھ یا نارتھ وزیرستان میں شریعت چاہتے ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ پورے پاکستان میں اسلام رائج کریں گے۔‘‘
2009ء میں بھی اس وقت کی صوبہ خیبرپختونخواہ حکومت نے عسکریت پسندوں سے ایک معاہدے کے بعد سوات میں شرعی عدالتی نظام متعارف کیا تھا مگر چند مہینوں کے بعد ہی شدت پسندوں کی کارروائیوں کا دائر وسیع ہونے پر وہاں فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت کی دہشت گردی سے متعلق حکمت عملی پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ’’یہ فیشن بن گیا ہے کہ جی مذاکرات نہیں ہو رہے۔‘‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں ’’بہت ساری باتیں ہوئی ہیں (جو کہ) خاموشی سے ہوئی ہیں‘‘۔
گزشتہ روز ہی سلامتی سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم نواز شریف نے دہشت گردوں کے خلاف موثر عدالتی کارروائی کے لیے قانون سازی کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کے حملوں میں بے گناہ شہریوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں کی ہلاکت کی کوئی گنجائش نہیں۔
انھوں نے یہ بات وزیراعظم سے منگل کو ملاقات کے بعد کہی جس میں ان کے مطابق ملک میں دہشت گردی کے مسئلے اور شدت پسندوں سے مذاکرات سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔
ملاقات کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مولانا سمیع الحق نے بتایا کہ وہ شدت پسندوں کو مذاکرات شروع کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ جلد شدت پسندوں سے رابطہ کرنے کی کوششیں شروع کر دی جائیں گی۔
تاہم جمیعت کے رہنما کا کہنا تھا کہ یہ کس طرح ہوگا ’’اس کا خاکہ ابھی ان کے ذہن میں نہیں‘‘َ۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری ایک مختصر بیان میں کہا گیا کہ ملاقات میں ’’اہم قومی معاملات‘‘ پر بات چیت ہوئی۔
مولانا سمیع الحق کی وزیراعظم سے یہ نشت گزشتہ ہفتے ان کے اس بیان کے بعد سامنے آئی جس میں جمیعت کے رہنما نے کہا تھا کہ عسکریت پسند پاکستان کے آئین کو تسلیم کرتے ہیں اور بات چیت کے عمل کے آغاز سے پہلے انہیں حکومت سے تحفظ کی یقین دہانی چاہیئے۔
ان کے مطابق ایک گھنٹے سے زائد دورانیے کی بات چیت میں وزیراعظم کو مذکرات نا شروع ہونے سے متعلق مشکلات اور قبائلی علاقوں میں چھپے عسکریت پسندوں کے تحفظات سے آگاہ کیا گیا۔
سمیع الحق کا کہنا تھا کہ وزیراعظم سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مذاکرات کے دوران امریکہ سے ڈرون حملے نا کرنے کی یقین دہانی لیں جو اس عمل کے آغاز اور کامیابی کی ضامن ثابت ہو سکتی ہے۔
’’اگر ہمارے مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو فائدہ امریکہ کو بھی ہو گا۔ افغانستان میں اس کے لیے راہیں آسان ہو جائیں گی۔ وہ بھی وہاں مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔ ہم سب کی اپیل یہ ہے کہ امریکہ کی مشاورت سے ہم یہ عمل شروع کریں تاکہ وہ راستے مٰیں سبوتاژ نا ہوں۔‘‘
نومبر کے اوائل میں شمالی وزیرستان میں ایک مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ سے منسلک پاکستانی طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود مارا گیا تھا جس پر حکومت کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ اس سے عسکریت پسندوں سے مجوزہ مذاکرات ’سبوتاژ‘ ہوئے ہیں۔
جے یو آئی (س) کے رہنما کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں کے مخصوص عدالتی نظام میں شدت پسندوں کی خواہش کے مطابق ترمیم سے بھی معاملات بڑی حد تک بہتر ہو سکتے ہیں۔
’’اگر کم از کم ہم ان کے علاقوں میں کہہ دیں کہ شریعت کے مطابق عدالتی فیصلے کرو۔ آپ کو آزادی ہے کیونکہ اب بھی وہاں پاکستانی عدالتیں اور نظام نہیں ہے تو پورے ملک میں امن ہو جائے گا۔ تو اس میں کیا مضحکہ خیز ہے۔‘‘
تاہم بعض مبصرین کہتے ہیں کہ اس طرح کی حکمت عملی کے سنگین نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ سیکورٹی امور کے ماہر اسد منیر کا کہنا ہے۔
’’انہوں نے کبھی نہیں بولا کہ ہم ساؤتھ یا نارتھ وزیرستان میں شریعت چاہتے ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ پورے پاکستان میں اسلام رائج کریں گے۔‘‘
2009ء میں بھی اس وقت کی صوبہ خیبرپختونخواہ حکومت نے عسکریت پسندوں سے ایک معاہدے کے بعد سوات میں شرعی عدالتی نظام متعارف کیا تھا مگر چند مہینوں کے بعد ہی شدت پسندوں کی کارروائیوں کا دائر وسیع ہونے پر وہاں فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت کی دہشت گردی سے متعلق حکمت عملی پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ’’یہ فیشن بن گیا ہے کہ جی مذاکرات نہیں ہو رہے۔‘‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں ’’بہت ساری باتیں ہوئی ہیں (جو کہ) خاموشی سے ہوئی ہیں‘‘۔
گزشتہ روز ہی سلامتی سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم نواز شریف نے دہشت گردوں کے خلاف موثر عدالتی کارروائی کے لیے قانون سازی کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کے حملوں میں بے گناہ شہریوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں کی ہلاکت کی کوئی گنجائش نہیں۔