واشنگٹن —
بھارت نے خبردار کیا ہے کہ پاکستانی فوج کی سرپرستی میں لائن آف کنٹرول پر ہونے والی مبینہ دخل اندازیوں پر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔
پیر کو بھارتی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ دفاع اے کے انتھونی نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر پیش آنے والے واقعات کا لازمی اثر بھارت کے رویے اور پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات پر پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت مبینہ دخل اندازیوں پر تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے جسے کوئی اس کی کمزوری نہ سمجھے۔
خیال رہے کہ وادی کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کرنے والی 'لائن آف کنٹرول' پر رواں ماہ کے اوائل میں پیش آنے والے واقعے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔
بھارتی حکام کے مطابق، چھ اگست کو مبینہ طور پر پاکستان کی طرف سے آنے والے مسلح افراد نے اس وقت پانچ بھارتی فوجیوں کو گھات لگا کر ’قتل کردیا تھا‘ جب وہ 'لائن آف کنٹرول' پر گشت کر رہے تھے۔
بھارتی حکومت نے واقعے کا الزام پاکستان کی فوج پر عائد کیا ہے جس کی اسلام آباد حکومت تردید کرتی ہے۔
پیر کو اپنے خطاب میں بھارتی وزیرِ دفاع نے دعویٰ کیا کہ چھ اگست کے حملے میں پاکستانی فوج کے اسپیشل دستے ملوث تھے۔ انہوں نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ حملے میں ملوث اپنے فوجیوں کے خلاف سخت کاروائی کرے۔
وزیرِ دفاع انتھونی نے پاکستان سے جنوری میں 'لائن آف کنٹرول' پر ہلاک ہونے والے ان دو بھارتی فوجیوں کے قتل میں ملوث فوجی اہلکاروں کے خلاف بھی کاروائی کا مطالبہ کیا جن میں سے ایک کا سر قلم کردیا گیا تھا۔
دونوں ممالک نےنومبر 2003ء میں 'لائن آف کنٹرول' پر جنگ بندی پہ اتفاق کیا تھا لیکن اس کے بعد سے اکثر فائرنگ کے تبادلے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں جن پر فریقین ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹہراتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت دونوں ہی کشمیر کے پورے علاقے پر ملکیت کے دعویدار ہیں اور اس تنازع پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔
وادی کشمیر کو دونوں ملکوں کے درمیان تقسیم کرنے والی 'لائن آف کنٹرول' کا شمار دنیا کی ان چند انتہائی حساس اور کشیدہ سرحدوں میں ہوتا ہے جہاں بھاری تعداد میں فریقین کے فوجی دستے تعینات ہیں۔
چھ اگست کو پیش آنے والے واقعے کے بعد سے 'لائن آف کنٹرول' پر تقریباً روزانہ ہی فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہے جس کا الزام فریقین حسبِ سابق ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق اتوار کی شب بھی پاکستانی اور بھارتی فوجی دستوں کے درمیان کارگل کے علاقے میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا جو تقریباً آدھا گھنٹہ جاری رہا۔ حکام کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں دونوں جانب کسی جانی یا مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق حالیہ جھڑپوں کے دوران میں دونوں افواج ہلکے ہتھیار استعمال کر رہی ہیں جب کہ 2003ء میں طے پانے والی جنگ بندی سے قبل اس طرح کی جھڑپوں میں 'لائن آف کنٹرول' پر دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروں اور توپ خانے کا استعمال کیا جاتا تھا۔
حالیہ جھڑپوں کے بعد بھارتی حکومت، ذرائع ابلاغ اور سیاست دان پاکستان کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کر رہے ہیں جس کے باعث کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے۔
لیکن مغربی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سےپاکستان کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کی بظاہر وجہ آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات ہیں جن میں امکان ہے کہ موجودہ حکمران جماعت کانگریس کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پیر کو بھارتی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ دفاع اے کے انتھونی نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر پیش آنے والے واقعات کا لازمی اثر بھارت کے رویے اور پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات پر پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت مبینہ دخل اندازیوں پر تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے جسے کوئی اس کی کمزوری نہ سمجھے۔
خیال رہے کہ وادی کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کرنے والی 'لائن آف کنٹرول' پر رواں ماہ کے اوائل میں پیش آنے والے واقعے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔
بھارتی حکام کے مطابق، چھ اگست کو مبینہ طور پر پاکستان کی طرف سے آنے والے مسلح افراد نے اس وقت پانچ بھارتی فوجیوں کو گھات لگا کر ’قتل کردیا تھا‘ جب وہ 'لائن آف کنٹرول' پر گشت کر رہے تھے۔
بھارتی حکومت نے واقعے کا الزام پاکستان کی فوج پر عائد کیا ہے جس کی اسلام آباد حکومت تردید کرتی ہے۔
پیر کو اپنے خطاب میں بھارتی وزیرِ دفاع نے دعویٰ کیا کہ چھ اگست کے حملے میں پاکستانی فوج کے اسپیشل دستے ملوث تھے۔ انہوں نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ حملے میں ملوث اپنے فوجیوں کے خلاف سخت کاروائی کرے۔
وزیرِ دفاع انتھونی نے پاکستان سے جنوری میں 'لائن آف کنٹرول' پر ہلاک ہونے والے ان دو بھارتی فوجیوں کے قتل میں ملوث فوجی اہلکاروں کے خلاف بھی کاروائی کا مطالبہ کیا جن میں سے ایک کا سر قلم کردیا گیا تھا۔
دونوں ممالک نےنومبر 2003ء میں 'لائن آف کنٹرول' پر جنگ بندی پہ اتفاق کیا تھا لیکن اس کے بعد سے اکثر فائرنگ کے تبادلے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں جن پر فریقین ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹہراتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت دونوں ہی کشمیر کے پورے علاقے پر ملکیت کے دعویدار ہیں اور اس تنازع پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔
وادی کشمیر کو دونوں ملکوں کے درمیان تقسیم کرنے والی 'لائن آف کنٹرول' کا شمار دنیا کی ان چند انتہائی حساس اور کشیدہ سرحدوں میں ہوتا ہے جہاں بھاری تعداد میں فریقین کے فوجی دستے تعینات ہیں۔
چھ اگست کو پیش آنے والے واقعے کے بعد سے 'لائن آف کنٹرول' پر تقریباً روزانہ ہی فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہے جس کا الزام فریقین حسبِ سابق ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق اتوار کی شب بھی پاکستانی اور بھارتی فوجی دستوں کے درمیان کارگل کے علاقے میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا جو تقریباً آدھا گھنٹہ جاری رہا۔ حکام کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں دونوں جانب کسی جانی یا مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق حالیہ جھڑپوں کے دوران میں دونوں افواج ہلکے ہتھیار استعمال کر رہی ہیں جب کہ 2003ء میں طے پانے والی جنگ بندی سے قبل اس طرح کی جھڑپوں میں 'لائن آف کنٹرول' پر دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروں اور توپ خانے کا استعمال کیا جاتا تھا۔
حالیہ جھڑپوں کے بعد بھارتی حکومت، ذرائع ابلاغ اور سیاست دان پاکستان کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کر رہے ہیں جس کے باعث کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے۔
لیکن مغربی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سےپاکستان کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کی بظاہر وجہ آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات ہیں جن میں امکان ہے کہ موجودہ حکمران جماعت کانگریس کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔