رسائی کے لنکس

پاک افغان سرحد پر مزید دو سرحدی گزرگاہیں کھل گئیں، تاجروں کی شکایات برقرار


حکومتِ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحد پر دو مزید سرحدی گزرگاہیں کھولنے کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان آمدورفت کے لیے کھولی جانے والی گزرگاہوں کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے۔

افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق نے ایک ٹوئٹ میں چترال کے قریب ارندو اور لوئر دیر کے علاقے بن شاہی میں افغانستان سرحد سے ملحقہ سرحدی راستے کھولنے کا اعلان کیا تھا۔

دونوں گزرگاہوں کے کھلنے سے افغانستان کے سرحدی صوبے کنڑ اور خیبر پختونخوا کے چترال اور لوئر دیر کے درمیان باقاعدہ طور پر دوطرفہ آمد ورفت اور تجارت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔


پاک افغان سرحد پر خاردار تار لگانے کے بعد پہلے طورخم اور چمن کی سرحدی گزرگاہیں کھولی گئی تھیں اور بعد میں قبائلی اضلاع کرم کے خرلاچی۔ شمالی وزیرستان کے غلام خان۔ جنوبی وزیرستان کے انگور اڈہ اور بلوچستان کے دالبندین کی گزرگاہوں کو کھولا گیا تھا۔

سن 2016 اور 2017 میں سرحد پر باڑ لگانے کے پاکستان کے فیصلے سے قبل دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان آمدورفت اور تجارت کے لیے 18 مقامات پر سرحدی گزر گاہیں قائم تھیں۔ لیکن باڑ کی تنصیب اور سرحدی پابندیوں کی وجہ سے کراسنگ پوائنٹ کم کر دیے گئے تھے جس پر کاروباری طبقات اور دونوں ملکوں کے شہریوں نے احتجاج بھی کیا تھا۔

تاجروں کا ردِ عمل

مقامی کاروباری افراد نے ارندو کے مقام پر سرحدی گزرگاہ کھلنے کی تصدیق کی ہے۔

پاکستان فیڈریشن آف چیمبرز اینڈ کامرس کمیٹی کے رُکن سرتاج احمد خان کے مطابق اس سرحدی گزرگاہ سے عام لوگوں کی آمدورفت تو شروع ہو گئی ہے، لیکن یہاں سے دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تجارت کا آغاز نہیں ہوا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سرتاج احمد خان نے ارندو اور بن شاھی کی گزرگاہوں کے کھلنے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ماضی کی طرح ایک بار بھر دو طرفہ تجارت اور آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا جو دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ ایوان و صنعت و تجارت نے بھی جمعرات کو جاری کردہ بیان میں دو نئی سرحدی گزرگاہوں کے کھلنے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے دونوں ملکوں کے تعلقات اور دو طرفہ تجارت کے لیے مفید قرار دیا ہے۔

تنظیم کے مشترکہ نائب صدر ضیاء الحق سرحدی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ سرحدی گزرگاہوں کے کھلنے کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک وہاں مناسب عملہ تعینات نہ کیا جائے۔

اُن کے بقول ماضی میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تجارتی سرگرمیوں کی نگرانی قبائلی انتظامیہ کے افسران کرتے تھے مگر اب قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد لگ بھگ چھ محکموں کے مزید آنے سے تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

ضیاء الحق سرحدی کا کہنا تھا کہ 2005 اور 2006 میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم پانچ ارب امریکی ڈالرز تک پہنچ گیا تھا مگر بعد میں اس میں بتدریج کمی آتی رہی۔

اُن کا کہنا تھا کہ چند برس قبل حکومت نے افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت کا حجم ڈھائی ارب ڈالرز تک بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا مگر ان کے بقول سہولیات نہ ہونے اور آئے روز نئی پابندیوں کے باعث اب دو طرفہ تجارت کا حجم صرف 70 سے 80 کروڑ ڈالر رہ گیا ہے۔

حکومتِ پاکستان کا موؐقف رہا ہے کہ سرحدی گزرگاہوں پر دونوں طرف کے عوام اور تاجروں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

افغانستان میں برسر اقتدار طالبان کی جانب سے کنڑ صوبے کے پاکستان کے چترال اور لوئر دیر کے ساتھ سرحدی گزرگاہوں کے کھولنے پر کسی قسم کے ردعمل سامنے نہیں آیا۔

XS
SM
MD
LG