پاکستان نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی اور وہاں بھارتی سکیورٹی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی مبینہ سنگین خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف ممالک میں خصوصی نمائندے بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اتوار کو بھارتی کشمیر میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور بعدازاں مظاہرین کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 13 عسکریت پسندوں سمیت 20 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستان پہلے ہی ان ہلاکتوں پر شدید ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری سے صورتِ حال کا نوٹس لینے کا مطالبہ کر چکا ہے۔
پیر کی شام وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کشمیر کی صورتِ حال سے آگاہ کرنے کے لیے خصوصی نمائندے مختلف ملکوں کو بھیجے جائیں گے اور جمعہ کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی کے دن کے طور پر منایا جائے گا۔
اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں وزیرِ خارجہ خواجہ محمد آصف نے صحافیوں کو بتایا کہ حکومت کشمیر کے مسئلے کے پرامن حل کے لیے تمام سفارتی ذرائع استعمال کرے گی۔
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ بھارت کی طرف سے کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کے لیے پاکستانی فورسز بھرپور صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔
بھارت کی طرف سے پاکستان کے ان بیانات پر کوئی ردِ عمل تو سامنے نہیں آیا البتہ نئی دہلی بھارتی کشمیر میں عسکریت پسندوں کی معاونت کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے یہ کہتا رہا ہے کہ اسلام آباد کو بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔
پاکستان ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ کشمیری عوام کی سفارتی، سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔
متنازع علاقے کشمیر کو منقسم کرنے والی عارضی حد بندی پر فائربندی معاہدے کے باوجود دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کی فورسز کے درمیان آئے روز گولہ باری اور فائرنگ کے تبادلے بھی ہوتے رہے ہیں جن میں دونوں جانب جانی نقصان بھی ہو چکا ہے۔
دونوں ملک فائربندی معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔
پیر کو اپنی پریس کانفرنس میں وزیرِ خارجہ خواجہ آصف نے صحافیوں کو بھارتی کشمیر کی صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گزشتہ دو برسوں میں وہاں بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 520 سے زائد شہری ہلاک اور کم از کم نو ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کی صورتِ حال پر انھوں نے اپنے ترک اور ایرانی ہم منصب کو ٹیلی فون پر آگاہ کیا ہے اور ان ممالک سے اس بارے میں اپنا کردار ادا کرنے کا بھی کہا ہے۔