رسائی کے لنکس

خواجہ سراؤں کا نکاح جائز ہے: فتویٰ


ضیا الحق نقشبندی کا کہنا تھا کہ فتویٰ میں یہ بھی کہا گیا کہ خواجہ سراؤں پر آوازیں کسنا، اُن کا مذاق اُڑانا، تذلیل کرنا اور اُنھیں حقیر سمجھنا شرعی طور پر کسی طور جائز نہیں۔

پاکستان کے 50 سے زائد مفتیان نے ایک فتویٰ میں خواجہ سراؤں سے نکاح کو شرعی طور پر جائز قرار دیا ہے۔

یہ فتویٰ ’تنظیم اتحاد اُمت پاکستان‘ کی اپیل پر اتوار کو جاری کیا گیا۔

پاکستان میں خواجہ سراؤں کو عمومی طور پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حالیہ مہینوں میں ملک کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواہ میں خواجہ سراؤں پر مہلک حملے بھی کیے گئے جن میں کئی خواجہ سرا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

’تنظیم اتحاد اُمت پاکستان‘ کے سربراہ ضیاالحق نقشبندی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُن کی توجہ خواجہ سراؤں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی جانب مبذول کروائی گئی جس کی بنیاد پر اُنھوں نے مفتیان سے اس بارے میں فتویٰ جاری کرنے کی اپیل کی تھی۔

ضیا الحق نقشبندی کا کہنا تھا کہ ایسے خواجہ سرا جن میں جسمانی طور پر زنانہ علامات پائی جاتی ہوں اُن کا ایسے خواجہ سرا سے نکاح جائز ہے جس میں مردانہ علامات پائی جاتی ہوں۔

فتویٰ میں یہ بھی کہا گیا کہ واضح علامات والے خواجہ سراؤں سے عام مرد اور خواتین بھی نکاح کر سکتی ہیں۔

ضیا الحق نقشبندی نے کہا کہ خواجہ سراؤں کو جائیداد سے بے دخل کرنا اسلام کے منافی ہے اور اس کے مرتکب افراد کے خلاف حکومت کو سخت کارروائی کرنی چاہیئے۔

’’خواجہ سراؤں کو جو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا اور جو والدین ان کو گھر سے نکال دیتے ہیں اور بے دخل کر دیتے ہیں اور جائیداد نہیں دیتے وہ بھی عذاب کے مستحق ہیں کیونکہ جس طرح بیٹی اور بیٹے کو حق دیا جاتا ہے اسی طرح یہ بھی جائیداد کے اہل ہیں۔‘‘

خواجہ سراؤں کی ایک تنظیم کے سربراہ الماس بوبی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فتویٰ کو خوش آئند قرار دیا۔

’’کسی کے ساتھ بھی ناروا سلوک نہیں ہونا چاہیئے۔۔۔ یہ اچھی بات ہے ہم اسے خوش آئند قرار دیتے ہیں۔‘‘

ضیا الحق نقشبندی کا کہنا تھا کہ فتویٰ میں یہ بھی کہا گیا کہ خواجہ سراؤں پر آوازیں کسنا، اُن کا مذاق اُڑانا، تذلیل کرنا اور اُنھیں حقیر سمجھنا شرعی طور پر کسی طور جائز نہیں۔

’’جو ان خواجہ سراؤں کو تنگ کرتے ہیں جو ان کو بری نظر سے دیکھتے ہیں ان پر آوازیں کستے ہیں ان کو حقوق نہیں دیتے ان کو نوکری نہیں دیتے اس حوالے سے ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ قانون سازی کرے تیسرا ہم نے اس میں بات یہ بھی کی ہے کہ نادرا پاکستان کا نظام ہے شناختی کارڈ کا وہ ان کو فوری طور پر شناختی کارڈ جاری کرے تاکہ یہ عام پاکستانیوں کی طرح زندگی گزاریں ان کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں نوکری کر سکیں ان کو ملازمت کرنے میں آسانی ہو۔‘‘

فتویٰ میں کہا گیا کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے علماء کی نگرانی میں قانونی سازی کی جائے۔

’’ہمارے فتویٰ کا جو مقصد ہے وہ یہی ہے جب اسلام نے ان کو ان کے حق دیئے ہیں تو ہم نے انھیں کیوں ایک نچلے درجے کا سمجھ رکھا ہے ایسی صورت حال میں ہم نے یہ گزارش کی ہے کہ نظام کو بھی فعال ہونا چاہیئے ریاست پاکستان کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔‘‘

خواجہ سراؤں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ اُن کے حقوق کے بارے میں فتویٰ حوصلہ افزا ہے لیکن اُن کے بقول اس کا حقیقی فائدہ صرف اُسی صورت اُنھیں ملے سکے گا جب اُن کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG