پاکستان کی سیکرٹری خارجہ نے کہا ہے کہ اسلام آباد، ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی میں کمی کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔
پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کا اجلاس منگل کو اسلام آباد میں ہوا جس میں سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے ایران سے متعلق پاکستان کی پالیسی کے بارے میں کمیٹی کے اراکین کو آگاہ کیا۔
قائمہ کمیٹی کے چیئرمین اویس لغاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے اراکین کو بتایا کہ اسلام آباد، دو مسلم ممالک تہران اور ریاض کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی میں کمی کے لیے کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔
’’پہلے بھی وزارت خارجہ اس چیز کو واضح کر چکی تھی۔۔۔ ہماری (پارلیمنٹ کی) طرف سے واضح طور پر اُنھیں کہا گیا کہ ہمیں (ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی میں کمی کے لیے) یہ کردار مستقل بنیادوں پر ادا کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیئے۔۔۔۔ پاکستان اسی نہج پر خود کو رکھے گا۔‘‘
واضح رہے کہ ایک روز قبل ہی ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ’ارنا‘ نے یہ خبر دی تھی کہ پاکستانی حکومت کی طرف سے جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کو سعودی قیادت میں قائم کیے گئے عسکری اتحاد کی قیادت سنبھالنے کے لیے دیئے گئے اجازت نامے پر ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔
ایرانی سفیر کے اس بیان پر پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا البتہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے چیئرمین اویس لغاری نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں حالیہ برسوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
’’دونوں ممالک (پاکستان اور ایران) اپنے تعلقات میں بہتری کے بارے میں بہت مطمعن ہیں اور پاکستان ان تعلقات کو اسی طرز پر جاری رکھے گا۔ یہ جو (مسلم ممالک کا) دہشت گردی کے خلاف جو اتحاد ہے، اس کے بارے میں اگر کچھ ممالک کو غلط فہمی ہے تو وہ بھی وقت کے ساتھ دور ہو گی۔‘‘
اُنھوں نے کہا پاکستان مسلم ممالک کے درمیان اتفاق و اتحاد قائم رکھنے کا حامی ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ آئندہ ماہ ایران کا دورہ کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔
منگل کو ہونے والے اجلاس میں کمیٹی کے اراکین نے کہا کہ پاکستان کے ایران اور سعودی عرب دونوں ہی سے اچھے تعلقات ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کوئی بھی ایسا فیصلہ نا کرے جس سے یہ تاثر ملے کہ اُس کا جھکاؤ کسی ایک ملک کی طرف ہے۔
کمیٹی کے چیئرمین اویس لغاری نے کہا کہ سعودی قیادت میں تشکیل دیا گیا فوجی اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں ہے۔
دسمبر 2015ء میں سعودی عرب نے لگ بھگ 34 اسلامی ملکوں پر مشتمل ایک فوجی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا جس کا ایک اہم مقصد دہشت گردی اور خاص طور پر شدت پسند تنظیم داعش کے خطرے سے نمٹنا بتایا گیا۔ اب اس اتحاد میں شامل ممالک کی تعداد 39 بتائی جاتی ہے۔
لیکن اس عسکری اتحاد میں سعودی عرب کا حریف ملک ایران اور بعض دیگر شیعہ ریاستیں بشمول عراق و شام شامل نہیں۔
پاکستان کے وزیر دفاع ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ سعودی عرب کی درخواست پر پاکستانی حکومت نے فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف کو مسلم ممالک کے عسکری اتحاد کی قیادت سنبھالنے کی اجازت دے دی ہے۔