رسائی کے لنکس

احمد آباد میں ٹرمپ کی پاکستان کی تعریف بھارت کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟


سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے اجلاس کا ایک منظر
سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے اجلاس کا ایک منظر

سینیٹ کے چیئرمین صادق نے امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان سے متعلق بیان کو پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈہ کا جواب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کی تعریف کر کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کیا ہے جو کہ ریاستی دہشت گردی پھیلانے والے بھارت کے پاکستان مخالف پراپیگنڈے کا مؤثر جواب ہے۔

چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پاکستان عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بھارتی کنٹرول کے کشمیر میں جاری مظالم کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے اور امریکی صدر اس مسئلے پر بھارت پر دباؤ ڈالیں۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے شہر احمد آباد میں ’نمستے ٹرمپ‘ عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کے خاتمے کے خواہاں ہیں اور امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔

بھارت کے شہر احمد آباد میں پہنچنے پر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب سے انہوں نے اقتدار سنبھالا ہے، ان کی حکومت پاکستان کے ساتھ دہشت گرد تنظیموں اور پاکستانی سرحد پر سرگرم عسکری کیمپوں کے خلاف کارروائی کے لیے مثبت انداز میں کام کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں اور ان کی کوششوں کے نتیجے میں امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں مثبت تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں۔

امریکی صدر نے کہا کہ ہم جنوبی ایشیاء میں کشیدگی میں کمی، مستقبل میں استحکام اور خطے کے تمام ممالک کے درمیان ہم آہنگی کے لیے پر امید ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خطے میں بہتر مستقبل کے لئے بھارت کو اہم کردار ادا کرنا ہو گا اور اس کے لیے نئی دہلی پر مسائل کے حل اور امن کی ترویج کے لیے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

ٹرمپ نے پاکستان کی بات کیوں کی

تجزیہ کار بھارت کی سرزمین پر پاکستان کی حمایت میں امریکی صدر کے بیان کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

تجزیہ کار طاہر خان کہتے ہیں کہ ہیں کہ ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان پر الزام عائد کیا کرتے تھے لیکن اب وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے مسلح گروہوں اور شدت پسندوں کے خلاف کاروائیوں کو تسلیم بھی کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکی صدر نے جنوبی ایشاء میں استحکام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بھارت کے ذمہ دارانہ کردار پر زور دیا ہے جو کہ نئی دہلی کو ایک پیغام ہے۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اس سے قبل متعدد بار کشمیر کے تنازع پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی پیش کش کر چکے ہیں جسے نئی دہلی نے قبول کرنے سے انکار کیا۔

عالمی امور کی ماہر ڈاکٹر ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ امریکی صدر کا احمد آباد جلسے سے خطاب میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے بیان ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن خطے کو صرف بھارت کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھ رہا۔

انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان ان کی ترجیح میں شامل ہے اور بھارت کے ساتھ بڑھتے تعلقات میں اسے نظر انداز نہیں کیا جارہا۔

ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ ٹرمپ نے انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان سے فوج کو واپس بلائیں گے اور رواں سال کے آخر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ووٹروں کو بتانے کے لئے یہ ایک بڑی کامیابی ہو گی۔

خیال رہے کہ 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کا امکان ہے

'پاک بھارت کشیدگی افغان امن عمل پر منفی اثر ڈال سکتی ہے'

طاہر خان کہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں امریکہ پاکستان کی سہولت کاری کا اعتراف کرتا ہے اور افغان امن معاہدے پر دستخطوں کے بعد بھی عمل درآمد کے حوالے سے واشنگٹن کو خدشات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ صورت حال میں بہتری لائی جا سکے جو کہ افغانستان میں امریکی فوجوں کے انخلاء میں سود مند ثابت ہو گی، اسی بنا پر ٹرمپ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش دہراتے رہتے ہیں۔

ڈاکٹر ماریہ سلطاب بھی یہ کہتی ہیں کہ امریکی صدر کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھارت کے خطے میں موجودہ کردار خاص طور پر شہریت بل اور کشمیر کے حوالے سے مطمئن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری تناؤ میں کمی لائی جا سکے۔ بصورت دیگر اس کے افغان امن عمل پر منفی نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کے سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی نے امریکی صدر کے دورہ بھارت سے متعلق بریفنگ کا اھتمام کیا جس میں عالمی امور کے ماہر اور جان ہاپکنز یونییورسٹی کے ڈین پروفیسر ولی نصر نے کمیٹی اراکین کو بریفنگ دی۔

ولی نصر نے کہا کہ امریکہ افغان امن عمل میں پاکستان کی سنجیدگی کا اعتراف کرتا ہے اور بات چیت کے آخری مراحل پر اسلام آباد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ یہ افغان امن کے لئے اس اہم مرحلے پر پاکستانی سفارتی حکام کے لئے اب اہم فیصلے کرنے ہوں گے اور امریکہ سے امداد کی بجائے تجارتی تعلقات استوار کرنا چاہئیں۔

XS
SM
MD
LG