پاکستان میں سرکاری اسکولوں میں قرآن کی تعلیم کو لازمی قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس ضمن میں تمام صوبوں کے وزرائے تعلیم سے مشاورت کے بعد عملدرآمد کا منصوبہ تیار کیا جائے گا۔
یہ بات وزیرمملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمن نے بدھ کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انھوں نے بتایا کہ سرکاری اسکولوں میں پہلی جماعت سے پانچویں تک ناظرہ قرآن پڑھایا جائے گا جب کہ قرآن کی مکمل تعلیم چھٹی جماعت سے دسویں تک میں دی جائے گی۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور مسلمان بچوں کو اسلامی تعلیم دینا اس کی آئینی ذمہ داریوں میں شامل ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ غیر مسلم طلبا کے لیے یہ پابندی نہیں ہے۔
ماہر تعلیم اور تدریسی نصاب کی ترتیب میں اہم کردار ادا کرنے والے پروفیسر اے ایچ نیئر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نصاب میں اسلامی تعلیمات پہلے ہی سے شامل ہیں اور مسلمان بچوں کو قرآن کی تعلیم دیا جانا ایک احسن قدم ہوگا۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ قرآنی تعلیم یا اسلام سے متعلق علم صرف اسلامیات کے مضمون تک ہی محدود رہے۔
ملک میں مختلف سماجی و ادبی حلقے نصاب تعلیم میں تبدیلیوں کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں تاکہ دور حاضر کے مطابق بچوں کی ذہن سازی کرنے میں مدد ملے۔
پاکستان میں قرآن کی تعلیم کا بیڑا ہزاروں مدارس نے اٹھا رکھا ہے لیکن اکثر انتہا پسندی کو ہوا دینے کے معاملے میں مدارس کا نام لیا جاتا رہا ہے۔
تاہم حکومتی عہدیداروں کے مطابق مدارس کی اکثریت کا انتہا پسندی سے کوئی تعلق نہیں اور جن کے خلاف ایسی کسی سرگرمی میں ملوث ہونے کے شواہد ملتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔
حکومت اور مدارس کی مختلف تنظیموں کے عہدیداروں کے درمیان کئی اجلاس بھی ہو چکے ہیں جس میں مدرسوں کے اندراج سمیت دیگر امور پر اتفاق کا بتایا گیا لیکن تاحال ان مدرسوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں اصلاحات پر گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہے۔
بہت سے مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دور حاضر کے دیگر علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں اور حکومت تمام مدرسوں کے نصاب کو یکساں کرنا چاہتی ہے۔