اسلام آباد —
پاکستان، ترکی اور افغانستان کے سہ فریقی سربراہ اجلاس میں دہشت گردوں اور غیر ریاستی عناصر کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی اور انھیں معاونت فراہم کرنے والوں کے بارے میں معلومات کے تبادلے کے عزم کو دہرایا گیا۔
ترکی کے شہر انقرہ میں سہ فریقی سربراہ اجلاس کے بعد ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے اپنے ملک کے اس عزم کو دہرایا کہ پاکستان، افغانستان میں افغانوں کی زیر قیادت امن و مصالحت کے عمل کی حمایت جاری رکھے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان تاریخ کے ایک اہم موڑ پر ہے اور وہاں کے عوام کو اپنے ملک کو پرامن بنانے اور اس کی تعمیر نو کے لیے متحد ہونا چاہیئے۔ ان کے بقول پاکستان اور افغانستان تعلقات کے ایک نئے باب پر کام شروع کر رہے ہیں۔
جنگ سے تباہ حال افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج رواں سال کے اواخر تک اپنے وطن واپس چلی جائیں گی جب کہ اس ملک کے سیاسی منظرنامے میں اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے بھی تبدیلی رونما ہونے جا رہی ہے۔
دوسری طرف افغانستان میں طالبان شدت پسندوں کی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جب کہ باور کیا جاتا ہے کہ بعض پاکستانی شدت پسند کمانڈر بھی افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ ان کے ملک میں سلامتی کی خراب صورتحال ماضی میں طالبان اور دیگر انتہا پسند عناصر کی طرف سے افغانستان کی سرزمین اور جغرافیائی خلاف ورزیوں کا نتیجہ ہے۔
’’ یہ سب (عسکریت پسندوں کی) پناہ گاہوں کے خلاف کارروائیاں نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔ امید ہے کہ جیسے ہم آگے بڑھ رہے ہیں ہم ان کے خلاف کارروائی کریں، اس سے پہلے کہ دونوں ممالک اور خطے کے لیے معاملہ مزید بگڑ جائے۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف نے اس امید کا اظہار کیا کہ افغان عوام ملک کو درپیش چیلجنز پر ہمت سے کام لیتے ہوئے قابو پالیں گے جب کہ پاکستان کی حکومت افغانستان کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات استوار رکھنے کے عزم پر قائم ہے۔
’’پاکستان اپنے طور پر (افغانستان میں امن و مصالحت) میں تعاون کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رکھے گا۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خطے کو انتہا پسندی و دہشت گردی سمیت سماجی و اقتصادی شعبوں میں سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ اس طرح کے مشترکہ مسائل کو خطے اور عالمی سطح پر مشترکہ کوششوں سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔‘‘
ترکی کے صدر عبداللہ گل کا اس موقع پر کہنا تھا کہ تینوں ممالک خطے میں امن قائم رکھنے کے لیے مل کر جدوجہد کر رہے ہیں اور اس سربراہ اجلاس کا مقصد تینوں ملکوں کے درمیان موجودہ کثیر الجہتی تعاون کو مستقبل میں مستحکم انداز میں فروغ دینا ہے۔
اس سے قبل سہ فریقی اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں عالمی برادری سے کہا گیا کہ وہ افغانستان کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے معاونت جاری رکھے اور اس ملک میں امن و استحکام کے لیے افغان قیادت کی کوششوں خصوصاً افغانستان میں مقامی سکیورٹی فورسز کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی رہے۔
پاکستان کی طرف سے اپنے ہاں افغان پناہ گزینوں کے قیام کی مدت میں دسمبر 2015ء تک توسیع کرنے کے فیصلے کو سراہا گیا اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ افغان پناہ گزینوں کی باعزت طریقے سے وطن واپسی کے لیے پاکستان اور افغانستان سے تعاون کریں۔
ترکی کے شہر انقرہ میں سہ فریقی سربراہ اجلاس کے بعد ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے اپنے ملک کے اس عزم کو دہرایا کہ پاکستان، افغانستان میں افغانوں کی زیر قیادت امن و مصالحت کے عمل کی حمایت جاری رکھے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان تاریخ کے ایک اہم موڑ پر ہے اور وہاں کے عوام کو اپنے ملک کو پرامن بنانے اور اس کی تعمیر نو کے لیے متحد ہونا چاہیئے۔ ان کے بقول پاکستان اور افغانستان تعلقات کے ایک نئے باب پر کام شروع کر رہے ہیں۔
جنگ سے تباہ حال افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج رواں سال کے اواخر تک اپنے وطن واپس چلی جائیں گی جب کہ اس ملک کے سیاسی منظرنامے میں اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے بھی تبدیلی رونما ہونے جا رہی ہے۔
دوسری طرف افغانستان میں طالبان شدت پسندوں کی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جب کہ باور کیا جاتا ہے کہ بعض پاکستانی شدت پسند کمانڈر بھی افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ ان کے ملک میں سلامتی کی خراب صورتحال ماضی میں طالبان اور دیگر انتہا پسند عناصر کی طرف سے افغانستان کی سرزمین اور جغرافیائی خلاف ورزیوں کا نتیجہ ہے۔
’’ یہ سب (عسکریت پسندوں کی) پناہ گاہوں کے خلاف کارروائیاں نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔ امید ہے کہ جیسے ہم آگے بڑھ رہے ہیں ہم ان کے خلاف کارروائی کریں، اس سے پہلے کہ دونوں ممالک اور خطے کے لیے معاملہ مزید بگڑ جائے۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف نے اس امید کا اظہار کیا کہ افغان عوام ملک کو درپیش چیلجنز پر ہمت سے کام لیتے ہوئے قابو پالیں گے جب کہ پاکستان کی حکومت افغانستان کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات استوار رکھنے کے عزم پر قائم ہے۔
’’پاکستان اپنے طور پر (افغانستان میں امن و مصالحت) میں تعاون کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رکھے گا۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خطے کو انتہا پسندی و دہشت گردی سمیت سماجی و اقتصادی شعبوں میں سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ اس طرح کے مشترکہ مسائل کو خطے اور عالمی سطح پر مشترکہ کوششوں سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔‘‘
ترکی کے صدر عبداللہ گل کا اس موقع پر کہنا تھا کہ تینوں ممالک خطے میں امن قائم رکھنے کے لیے مل کر جدوجہد کر رہے ہیں اور اس سربراہ اجلاس کا مقصد تینوں ملکوں کے درمیان موجودہ کثیر الجہتی تعاون کو مستقبل میں مستحکم انداز میں فروغ دینا ہے۔
اس سے قبل سہ فریقی اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں عالمی برادری سے کہا گیا کہ وہ افغانستان کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے معاونت جاری رکھے اور اس ملک میں امن و استحکام کے لیے افغان قیادت کی کوششوں خصوصاً افغانستان میں مقامی سکیورٹی فورسز کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی رہے۔
پاکستان کی طرف سے اپنے ہاں افغان پناہ گزینوں کے قیام کی مدت میں دسمبر 2015ء تک توسیع کرنے کے فیصلے کو سراہا گیا اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ افغان پناہ گزینوں کی باعزت طریقے سے وطن واپسی کے لیے پاکستان اور افغانستان سے تعاون کریں۔