پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ترکی میں جمہوری حکومت کے خلاف ’بغاوت‘ کی ناکام کوشش کی شدید مذمت کی ہے۔
ایک بیان میں وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ بغاوت کے خلاف کھڑے ہونے والے ترک عوام کا عزم قابل ستائش ہے۔
پاکستان میں صرف حکمران جماعت ہی نے نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی ترکی میں بغاوت کی کوشش کے خلاف بیانات سامنے آئے۔
وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان کی طرف سے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور وہاں کی منتخب جمہوری حکومت و اداروں سے مکمل یکجہتی کا اظہار بھی کیا۔
اُنھوں نے پاکستانی حکومت اور عوام کی جانب سے ترکی کی منتخب قیادت اور عوام کی مکمل حمایت کے عزم کو بھی دہرایا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک سینیئر رہنما فرحت اللہ بابر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جس طرح ترکی کے عوام نے حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کو روکنے میں کردار ادا کیا وہ جمہوریت کے حامی لوگوں کے لیے حوصلہ افزا عمل ہے۔
’’ اس کی ناکامی کی جو بنیادی وجہ ہے وہ یہ ہے کہ ترک عوام حکومت کا اور جمہوریت کا ساتھ دے کر سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے ٹینکوں اور توپ خانے کا مقابلہ نہتے ہاتھوں کے ساتھ کیا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں کا یقین جمہوریت پر ہو تو پھر وہ کسی آمریت کو نہیں آنے دیتے اور وہ کھڑے ہو گئے اور فوجی بغاوت ناکام ہوئی۔‘‘
پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے ’پلڈاٹ‘ کے سربراہ اور تجزیہ کار احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ترکی میں بغاوت کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کوشش میں فوج بطور ایک ادارے کے شامل نہیں تھی۔
’’لیکن اس مرتبہ بہت فرق تھا کہ یہ ایک ادارے کی کوشش نہیں تھی ادارے کے اندر کچھ محدود لوگوں کی کوشش تھی اس دوران سیاسی ادارے بھی کچھ مستحکم ہو چکے تھے اور عوامی تائید بھی حکومت کے ساتھ موجود تھی یہ تمام چیزیں بروئے کار آئیں اور یہ کوشش ناکام ہوئی جو بڑی خوش آئند ہے۔‘‘
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما راجہ ظفر الحق کہتے ہیں کہ ترکی میں بغاوت کی کوشش کے خلاف عوام کا ردعمل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ جمہوریت ہی کو بہترین نظام حکومت سمجھتے ہیں۔
’’جس طریقے سے لوگوں نے رد عمل کا اظہار کیا اور اس میں اپنی جانیں بھی پیش کیں۔۔۔ ٹینکوں سے لوگوں کو نکال نکال کر ان کو گرفتار بھی کیا اور ٹینکوں کے آگے لیٹ بھی گئے اس کا مطلب یہ کہ جو جمہوریت کے لیے جذبات ہیں وہ اس قدر مضبوط ہوچکے ہیں کہ اس قسم کی حرکت کو لوگ برداشت کرنے کو تیار نہیں اور اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار ہیں یہ ایک بہت اچھی پیش رفت ہے۔‘‘
ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی اس کوشش میں فوج کے ایک گروہ کو روکنے میں نا صرف صدر رجب طیب اردوان کے حامیوں نے کردار ادا کیا بلکہ حزب مخالف کی جماعتوں نے بھی اُن کا ساتھ دیا۔
فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ ترکی میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا کردار مثالی رہا۔
’’تمام سیاسی جماعتیں خواہ وہ حزب اختلاف کی ہوں خواہ وہ حسب اقتدار کی ہوں انھیں جمہوریت کو بچانے کے لیے ایک ہونا چاہیئے خواہ ان کی آپس میں کتنی ہی شدید مخالفت کیوں نہ ہو۔‘‘
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر راجہ ظفر الحق کہتے ہیں جس طرح ترکی میں بغاوت کی کوشش ناکام ہوئی، اُس کے اثر دیگر ایسے ممالک پر بھی پڑیں گے جہاں جمہویت اتنی مضبوط نہیں ہے۔
’’میرے خیال ہے کہ اس کے اثرات نا صرف ترکی میں ہوں گے بلکہ کئی ایسے ممالک میں بھی جہاں جمہوریت ابھی تک اس طرح مستحکم نہیں ہوئی جیسے انگلینڈ میں ہے جیسے امریکہ میں ہے، پھر بھی جمہوریت کے لیے جو عالمی جذبات ہیں، اس کو استحکام حاصل ہو گا۔‘‘
اُدھر پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے استنبول میں پھنسے پاکستانیوں کی واپسی کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ اگر اس سلسلے میں خصوصی پروازوں کی ضرورت ہو تو اُن کا بھی انتظام کیا جائے۔