رسائی کے لنکس

پاکستان سے ترکی تک مال بردار ٹرین کی بحالی؛ اس راہ میں مشکل کیا ہے؟


فائل فوٹو میں ایک پاکستانی ٹرین دیکھی جا سکتی ہے
فائل فوٹو میں ایک پاکستانی ٹرین دیکھی جا سکتی ہے

نو سال کے تعطل کے بعد پاکستان نے منگل کو ترکی کے لیے براستہ ایران بین الاقوامی مال بردار ٹرین سروس کا آغاز کر دیا ہے۔

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد کے مارگلہ ریلوے اسٹیشن پر ٹرین سروس دوبارہ شروع کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس سروس کے ذریعے پاکستان، ایران اور ترکی میں تجارت کو فروغ ملے گا۔

پاکستان کی کاروباری برادری اور مبصرین نے استنبول، تہران، اسلام آباد کے درمیان ٹرین آپریشنز کی بحالی کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی اقتصادی اور تجارتی افادیت کے باوجود پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان مال بردار ٹرین کو پائیدار بنیادوں پر جاری رکھنے کے لیے آپریشنل اور دیگر مسائل حل کرنا ضروری ہے۔

پاکستان کے وزیرِاعظم کے مشیر برائے تجارت عبد الرزاق داؤد نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ یہ ٹرین 12 دنوں میں ایک طرف کا سفر مکمل کرے گی جس کے ذریعے پاکستان، ایران اور ترکی کے مابین تجارتی سامان کی نقل و حرکت آسان ہو جائے گی۔

چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کوئٹہ بلوچستان کے صدر فدا حسین دستی کا کہنا ہے کہ پاکستان ایران اور ترکی کے درمیان مال بردار ٹرین سروس کا آغاز خوش آئند ہے۔ ان کے مطابق، ٹرین سروس ٹرکوں اور سمندری راستے کی نسبت زیادہ آسان اور کم خرچ ہو گی۔

یاد رہے کہ پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان یہ ریل سروس 6500 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر ے گی۔

فدا حسین دستی کہتے ہیں کہ پاکستان اور ایران کی ریلوے لائنز کا سائز مختلف ہے جس کے باعث پاکستان سے زاہدان تک تو پاکستانی کارگو ٹرین سامان لے کر جائے گی، لیکن اس سے آگے یہ سامان ترکی کی ٹرین میں منتقل کیا جائے گا۔

فدا دستی کے بقول پاکستانی ریلوے حکام نے یقین دلایا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ مل کر اس معاملے کو حل کرنے کے کوشش کریں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ مشکل حل ہو جاتی ہے تو بلوچستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے تجارتی برادری کے لیے ترکی اور ایران کے ساتھ تجارت آسان ہو جائے گی۔

فدا حسین کا کہنا ہے کہ ابھی تک ایران پر عائد تعزیرات کی وجہ سے بینکنگ چینلز فعال نہیں ہیں اس لیے مال کے بدلے مال کے اصول کے تحت تجارت ہو رہی ہے۔ لیکن، ان کا کہنا ہے کہ جب بینکنگ نظام فعال ہو جاتا ہے تو اس سے کاروباری افراد کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

لیکن ساتھ ہی، وہ کہتے ہیں کہ ٹرین کے معیار اور اس کی رفتار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ مال بردار ٹرینوں میں کولڈ اسٹوریج سسٹم بھی نصب کرنا ہو گا تاکہ بلوچستان سے پھل اور سبزیوں کی برآمدات بھی ہو سکیں۔

ماہرِ اقتصادیات اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان مال بردار ٹرین سروس کا آغاز 2009 میں ہوا لیکن اس میں بعض وجوہات پر تعطل آتا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ، ان کے بقول، امریکہ کی طرف سے عائد تعزیرات ہیں جس کی وجہ سے ایران کے دوسرے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی روابط فروغ نہیں پا سکے۔

لیکن اشفاق حسن نے کہا کہ جیسے جیسے صورتِ حال بہتر ہو گی نہ صرف علاقائی تجارت کو فروغ حاصل ہو گا بلکہ تجارتی راہداریوں کو بھی مزید وسعت دی جا سکے گی۔

اگرچہ پاکستان، ایران اور ترکی ٹرین سروس کا چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ایران اور اس سے آگے توسیع دی جا سکتی ہے جب کہ چین نے ایران کے ساتھ 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ بھی کر رکھا ہے۔

اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا کے اکثر ممالک تجارتی رابطوں اور راہداریوں کو فروغ دینے پر توجہ دیے رہے ہیں اور پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان ٹرین سروس کی افادیت ہر لحاظ سے اہم ہو گی۔

اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ پاکستان ایران اور ترکی اقتصادی تعاون تنطیم ای سی او اور تینوں ممالک سینٹرل ایشیا ریجنل اکنامک کوآپریشن (کیرک) کے بھی رکن ہیں ان میں سیاسی اختلافات بھی نہیں ہیں اس لے ان ممالک کے درمیان تجارتی روابط کے لیے زمینی راستوں کو فروغ دینا ان کے یکساں مفاد میں ہو گا۔

پاکستان ریلوے کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر آفتاب اکبر کا کہنا ہے کہ اسلام آباد، تہران، استنبول مال بردار ٹرین سروس کی ممکنہ افادیت کے باجود اس ٹرین کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھنے کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں اور جب تک ان مشکلات کو حل نہیں کر لیا جاتا اس ٹرین سروس کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھنا آسان نہیں ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے آفتاب اکبر نے کہا کہ جس روٹ سے یہ تجارتی ٹرین گزرتی ہے اس راستے پر واقع پاکستان کے بولان پاس کا راستہ اونچائی پر ہونے کی وجہ سے مال بردار ٹرین کا آسانی سے یہاں گزرنا ممکن نہیں ہے لہذٰا ٹرین کی بوگیوں کو دو تین مرحلوں میں الگ الگ کر کے گزارا جاتا ہے۔

پاکستان اور ترکی کا دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کا عزم
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:42 0:00

آفتاب اکبر کا کہنا ہے کہ کوئٹہ سے ایران سرحد سے متصل تفتان شہر تک ریل کی پٹری نہایت کمزور ہے اور اس پر ٹرین کی رفتار 15 سے 20 کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔

لیکن آفتاب اکبر کا کہنا ہے کہ ایک مشکل مرحلہ یہ بھی ہے کہ جب یہ مال بردار ٹرین ایران میں زاہدان شہر میں داخل ہوتی ہے اس سے پہلے اس پر لدے ہوئے سامان کو ایک ترکی جانے والے دوسری ٹرین میں منتقل کرنا ضروری ہے، کیونکہ پاکستان کے اندر ریل کی پٹری کی چوڑائی زیادہ ہے جب کہ ایران سے ترکی تک ریل کی پٹڑی کی چوڑائی کم ہے۔ ان کے بقول، اس کے ساتھ ساتھ بارڈر کراسنگ طریقہ کار وضح کرنا ہو گا تاکہ اس ٹرین کے ذریعے تجارت کو آسان بنایا جائے۔

آفتاب اکبر کا کہنا ہے کہ اس ٹرین کے ذریعے تجارتی سامان کو ایران اور ترکی برآمد کرنے کے لیے کنٹینرز کی دستیابی اور بعدازاں ان کی ترکی سے واپسی کو یقینی بنانا ضروری ہوگا۔

آفتاب اکبر کا کہنا ہے کہ اگر ان مسائل کو حل نہ کیا گیا تو چند ایک بار تو یہ ٹرین چلائی جا سکتی ہے لیکن پائیدار بنیادوں پر اسے چلانا شاید ممکن نہ ہو۔

پاکستان ریلوے کے سابق اعلیٰ عہدیدار آفتاب اکبر کا کہنا ہے کہ کوئٹہ تفتان ریل پٹری کو بہتر کرنا اور جدید اور معیاری بنانے کے لیے سرمایہ کاری ضرورت ہے، لیکن پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورتحال کے پیش نظر شاید اس طرف جلد پیش رفت نہ ہوسکے ۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان مال بردار ٹرین کو پائیدار بنیادوں پر جاری رکھنے کے لیے آپریشنل مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔

ان کے بقول، اگر پاکستان ایران اور ترکی کے درمیان تجارتی حجم میں اضافہ ہوتا تو اس صورت میں ٹرین کے ذریع سرمایہ کا امکان ہے۔

تاہم استنبول میں پاکستان کے قونصلر جنرل بلال خان پاشا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومتِ پاکستان ان تمام معاملات کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس میں کوئٹہ تفتان ریل لنک کو بھی مزید بہتر بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے، تاکہ اس منصوبے کی افادیت کو مؤثر بنایا جا سکے اور پاکستان کی کاروباری برادری کو اپنی برآمدات کو ترکی اور اس سے آگے پہنچانے میں آسانی ہو سکے۔

بلال پاشا کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سمندری راستے سے تجارتی سامان کی ترسیل مہنگی ہوتی جا رہی ہے اس لے پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان ٹرین سروس سے اب پاکستان کی برآمدات کو نسبتاً کم خرچ پر دیگر ممالک میں پہنچایا جا سکے گا۔

XS
SM
MD
LG