آٹھ ماہ بعد یعنی مارچ 2013ء میں برسراقتدار پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر رہی ہے تاہم اس بار غیر معمولی طور پر ابھی سے سیاسی صورتحال انتہائی غیر یقینی کا شکار ہوگئی ہے ۔ ایک جانب تو ملک کی تمام سیاسی جماعتیں آئندہ انتخابات کی تیاریوں اور جوڑ توڑ میں مصروف ہیں تو دوسری طرف ملتان کے ضمنی انتخابات نے نئے امکانات کو جنم دے دیا ہے۔ ادھر حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاز آرائی کا تاثرزورپکڑتاجا رہا ہے ۔ اس تمام تر صورتحال میں انتخابات کا مقررہ وقت پر انعقاد سوالیہ نشان بننے لگا ہے۔
سیاسی اتحاد،جوڑتوڑ
انتخابات کیلئے حکمراں جماعت پیپلزپارٹی جہاں اتحادی جماعتوں پر انحصار کر رہی ہے تو وہیں مسلم لیگ ق کے ساتھ ملکر اس نے حریف جماعت مسلم لیگ ن کو پنجاب میں ٹف ٹائم دینے کی حکمت عملی مرتب کر لی ہے ۔ اس بات کی تصدیق وزیر اطلاعات بھی اتوار کو میڈیا سے گفتگو میں کر چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایم کیو ایم اورخیبر پختونخواہ میں اے این پی نے پیپلزپارٹی کے ہاتھ مضبوط کر رکھے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی حکمت عملی میں مسلم لیگ ہم خیال کو اپنے ساتھ ملانے کے بعد اس کا سب سے زیادہ جھکاؤ سندھی قوم پرستوں کی طرف نظرآ رہا ہے اور وہ اس مقصد میں کافی حدتک کامیاب بھی ہو رہی ہے۔
تحریک انصاف اورجماعت اسلامی سمیت دائیں بازو کی دیگر قوتوں کے اتحاد کا بھی قوی امکان نظر آ رہا ہے ۔ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل( ایم ایم اے ) کی بحالی کیلئے بھی کوششیں جاری ہیں ۔
آئندہ کا ممکنہ منظر نامہ
ملتان کے حلقے151 پر ضمنی انتخاب نے آئندہ عام انتخاب کا مختصر اً منظر نامہ پیش کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کو شکست دینے کیلئے اس وقت کی سب سے بڑی حریف سمجھی جانے والی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ایک ساتھ کھڑی نظر آئیں ۔ انتخابی مہم میں عبدالقادر کے مقابلے میں شوکت بوسن کی نواز شریف، عمران خان اور جماعت اسلامی کے ساتھ تصاویر ہر چوراہے کی زینت بنیں۔ یہی وجہ ہے کہ عبدالقادر گیلانی کے لئے شوکت بوسن تر نوالہ ثابت نہیں ہوئے ۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ملتان میں ضمنی انتخاب آئندہ انتخاب کا ٹریلر ہے اور پیپلزپارٹی کی حریف جماعتوں کے طرزعمل سے اس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو شکست دینے کیلئے دائیں بازو کی قوتیں ایک بار پھر متحد ہو سکتی ہیں ۔ اور اس بات کے امکانات بھی ہیں کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن بعض جگہ مل کر پیپلزپارٹی کی کاٹ کریں ۔ اس کے علاوہ ” آئی جے آئی “ طرز کے اتحاد کے بھی امکانات ہیں۔
حکومت اورعدلیہ کے درمیان محاز آرائی کا بڑھتا ہوا تاثر
پاکستان میں اداروں کے اختیارات پر گرما گرم بحث چھڑتی رہی ہے۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ میں شدیدتناؤ کاتاثرعام ہے ۔ اس معاملے میں اضافہ توہین عدالت کے خلاف نیاحکومتی قانون ہے جو سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔ اس کے علاوہ دہری شہریت کا معاملہ لیجئے جس میں ایک جانب تو سپریم کورٹ کے حکم پر رحمن ملک وفاقی وزیر سے مشیر بن گئے تھے جبکہ انہیں وہیں سینیٹ کی رکنیت سے بھی ہاتھ دھوناپڑا۔ لیکن حکومت نے پھر انہیں ان کی اپنی ہی خالی کردہ نشست پر دوبارہ منتخب کرا لیا ۔ اس کے علاوہ این آر او سمیت دیگر مقدمات اپنی جگہ بدستورقائم ہیں۔
انتخابات کا مقررہ وقت پر انعقاد سوالیہ نشان
اس تمام تر تناظر میں انتخابات کا مقررہ وقت پر انعقاد ہونا بھی ایک بڑا سوالیہ نشان بن چکا ہے ۔ اگر چہ اس مرتبہ فوج کے جمہوری حکومت میں مداخلت کے دوردور تک کوئی امکانات نہیں تاہم اسکے باوجود پیپلزپارٹی کی قیادت آئے روز یہ محسوس کرتی رہتی ہے کہ اس کے خلاف سازش ہو رہی ہے ۔ کیا ساز ش ہو رہی ہے یہ کوئی نہیں بتا رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی سوچ کے مطابق سازش کی تشریح کررہا ہے ۔
پیپلز پارٹی کے حریفوں کا موقف ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت اپنی مدت میں عوام کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کر سکی ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دو ، تین سال کیلئے ٹینکوکریٹس کی حکومت چاہتی ہے۔ اس عرصے میں عوام اس کی غفلت کو بھول جائیں گے اور ایک مرتبہ پھر اسے کامیاب کرائیں گے۔
اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کے مضبوط گڑھ صوبہ سندھ کی قیادت سے بار بار یہ آواز آ رہی ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے حکم پر ستمبر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو عام انتخابات وقت مقررہ پر ہونا مشکل ہوں گے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا حکم یا عام انتخاب وقت مقررہ پر منعقد کرانا دونوں میں سے ایک کام ہو گا۔ لہذا اس بات پر سپریم کورٹ کیا کہے گی اس کا بھی سب کو معلوم ہے۔
پیر کو چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے نئے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم سے حلف بھی لے لیا جنہوں نے میڈیا کو بتایاکہ انتخابات کب ہونگے۔ اس کاحتمی فیصلہ وزیراعظم کریں۔ شفاف انتخابات ان کی زندگی کا آخری مشن ہے جسے عوام اور میڈیا کی مدد سے کامیاب بنایا جاسکتا ہے۔ مبصرین اس عہدے کو فخرالدین کیلئے پھولوں کی سیج قرارنہیں دے رہے ۔
فخر الدین جی کو سب سے زیادہ یہ مسئلہ درپیش ہو گا کہ انتخابات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کو کیسے روکیں گے۔ اس کے علاوہ تقریبا دو کروڑ عوام کے ملک میں شناختی کارڈ ہی نہیں لہذا وہ ووٹ کیسے ڈالیں گے ۔پھر ریٹرنگ آفیسرز کی تعیناتی، از سر نو حلقہ بندیاں اور سیاسی جماعتوں سے قواعد و ضوابط کی پابندی کراناجیسے انگنت مسائل جو فخر الدین جی ابراہیم کے استقبال کیلئے تیار کھڑے ہیں ۔
سیاسی اتحاد،جوڑتوڑ
انتخابات کیلئے حکمراں جماعت پیپلزپارٹی جہاں اتحادی جماعتوں پر انحصار کر رہی ہے تو وہیں مسلم لیگ ق کے ساتھ ملکر اس نے حریف جماعت مسلم لیگ ن کو پنجاب میں ٹف ٹائم دینے کی حکمت عملی مرتب کر لی ہے ۔ اس بات کی تصدیق وزیر اطلاعات بھی اتوار کو میڈیا سے گفتگو میں کر چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایم کیو ایم اورخیبر پختونخواہ میں اے این پی نے پیپلزپارٹی کے ہاتھ مضبوط کر رکھے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی حکمت عملی میں مسلم لیگ ہم خیال کو اپنے ساتھ ملانے کے بعد اس کا سب سے زیادہ جھکاؤ سندھی قوم پرستوں کی طرف نظرآ رہا ہے اور وہ اس مقصد میں کافی حدتک کامیاب بھی ہو رہی ہے۔
تحریک انصاف اورجماعت اسلامی سمیت دائیں بازو کی دیگر قوتوں کے اتحاد کا بھی قوی امکان نظر آ رہا ہے ۔ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل( ایم ایم اے ) کی بحالی کیلئے بھی کوششیں جاری ہیں ۔
آئندہ کا ممکنہ منظر نامہ
ملتان کے حلقے151 پر ضمنی انتخاب نے آئندہ عام انتخاب کا مختصر اً منظر نامہ پیش کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کو شکست دینے کیلئے اس وقت کی سب سے بڑی حریف سمجھی جانے والی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ایک ساتھ کھڑی نظر آئیں ۔ انتخابی مہم میں عبدالقادر کے مقابلے میں شوکت بوسن کی نواز شریف، عمران خان اور جماعت اسلامی کے ساتھ تصاویر ہر چوراہے کی زینت بنیں۔ یہی وجہ ہے کہ عبدالقادر گیلانی کے لئے شوکت بوسن تر نوالہ ثابت نہیں ہوئے ۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ملتان میں ضمنی انتخاب آئندہ انتخاب کا ٹریلر ہے اور پیپلزپارٹی کی حریف جماعتوں کے طرزعمل سے اس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو شکست دینے کیلئے دائیں بازو کی قوتیں ایک بار پھر متحد ہو سکتی ہیں ۔ اور اس بات کے امکانات بھی ہیں کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن بعض جگہ مل کر پیپلزپارٹی کی کاٹ کریں ۔ اس کے علاوہ ” آئی جے آئی “ طرز کے اتحاد کے بھی امکانات ہیں۔
حکومت اورعدلیہ کے درمیان محاز آرائی کا بڑھتا ہوا تاثر
پاکستان میں اداروں کے اختیارات پر گرما گرم بحث چھڑتی رہی ہے۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ میں شدیدتناؤ کاتاثرعام ہے ۔ اس معاملے میں اضافہ توہین عدالت کے خلاف نیاحکومتی قانون ہے جو سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔ اس کے علاوہ دہری شہریت کا معاملہ لیجئے جس میں ایک جانب تو سپریم کورٹ کے حکم پر رحمن ملک وفاقی وزیر سے مشیر بن گئے تھے جبکہ انہیں وہیں سینیٹ کی رکنیت سے بھی ہاتھ دھوناپڑا۔ لیکن حکومت نے پھر انہیں ان کی اپنی ہی خالی کردہ نشست پر دوبارہ منتخب کرا لیا ۔ اس کے علاوہ این آر او سمیت دیگر مقدمات اپنی جگہ بدستورقائم ہیں۔
انتخابات کا مقررہ وقت پر انعقاد سوالیہ نشان
اس تمام تر تناظر میں انتخابات کا مقررہ وقت پر انعقاد ہونا بھی ایک بڑا سوالیہ نشان بن چکا ہے ۔ اگر چہ اس مرتبہ فوج کے جمہوری حکومت میں مداخلت کے دوردور تک کوئی امکانات نہیں تاہم اسکے باوجود پیپلزپارٹی کی قیادت آئے روز یہ محسوس کرتی رہتی ہے کہ اس کے خلاف سازش ہو رہی ہے ۔ کیا ساز ش ہو رہی ہے یہ کوئی نہیں بتا رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی سوچ کے مطابق سازش کی تشریح کررہا ہے ۔
پیپلز پارٹی کے حریفوں کا موقف ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت اپنی مدت میں عوام کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کر سکی ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دو ، تین سال کیلئے ٹینکوکریٹس کی حکومت چاہتی ہے۔ اس عرصے میں عوام اس کی غفلت کو بھول جائیں گے اور ایک مرتبہ پھر اسے کامیاب کرائیں گے۔
اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کے مضبوط گڑھ صوبہ سندھ کی قیادت سے بار بار یہ آواز آ رہی ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے حکم پر ستمبر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو عام انتخابات وقت مقررہ پر ہونا مشکل ہوں گے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا حکم یا عام انتخاب وقت مقررہ پر منعقد کرانا دونوں میں سے ایک کام ہو گا۔ لہذا اس بات پر سپریم کورٹ کیا کہے گی اس کا بھی سب کو معلوم ہے۔
پیر کو چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے نئے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم سے حلف بھی لے لیا جنہوں نے میڈیا کو بتایاکہ انتخابات کب ہونگے۔ اس کاحتمی فیصلہ وزیراعظم کریں۔ شفاف انتخابات ان کی زندگی کا آخری مشن ہے جسے عوام اور میڈیا کی مدد سے کامیاب بنایا جاسکتا ہے۔ مبصرین اس عہدے کو فخرالدین کیلئے پھولوں کی سیج قرارنہیں دے رہے ۔
فخر الدین جی کو سب سے زیادہ یہ مسئلہ درپیش ہو گا کہ انتخابات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کو کیسے روکیں گے۔ اس کے علاوہ تقریبا دو کروڑ عوام کے ملک میں شناختی کارڈ ہی نہیں لہذا وہ ووٹ کیسے ڈالیں گے ۔پھر ریٹرنگ آفیسرز کی تعیناتی، از سر نو حلقہ بندیاں اور سیاسی جماعتوں سے قواعد و ضوابط کی پابندی کراناجیسے انگنت مسائل جو فخر الدین جی ابراہیم کے استقبال کیلئے تیار کھڑے ہیں ۔