پاکستان میں پولیس نے مشرق وسطیٰ میں سرگرم شدت پسند گروپ داعش سے مبینہ طور پر وابستہ افراد کو گرفتار کیا ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ان میں سے ایک شخص کو پنجاب کے ضلع اٹک اور ایک کو جہلم کے علاقے سے حراست میں لیا گیا۔
تحویل میں لیے گئے مشتبہ افراد کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ شدت پسند گروپ سے ہمدردی رکھنے والوں کو جمع کرنے اور اس کی کارروائیوں سے متعلق مبینہ منصوبہ سازی میں ملوث ہیں۔
داعش نے شام اور عراق کے ایک وسیع علاقے پر گزشتہ سال قبضہ کر کے وہاں نام نہاد خلافت قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنا دائرہ اثر خراسان تک بڑھانے کا کہا تھا۔ تاریخی اعتبار سے خراسان میں افغانستان، پاکستان اور اس کے قرب و جوار کے علاقے شامل تھے۔
گو کہ پاکستانی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ یہاں داعش کی موجودگی کے آثار نہیں ہیں اور مختلف شدت پسند اس گروپ کا نام استعمال کر کے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن حالیہ مہینوں میں مختلف علاقوں میں داعش کی حمایت سے متعلق تحریری مواد کے علاوہ دیواروں پر اس کے حق میں نعرے بھی دیکھے جا چکے ہیں۔
پاکستان نے دو روز پہلے ہی کہا تھا کہ داعش یا اس سے جڑے کسی بھی فرد کو ملکی سرزمین پر برداشت نہیں کیا جائے گا جب کہ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا بھی یہ بیان سامنے آ چکا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ داعش کا سایہ بھی پاکستان پر نہیں پڑنے دیا جائے گا۔
پاکستان میں شدت پسندی کی تاریخ کے تناظر میں مبصرین یہ خدشات ظاہر کرتے رہے ہیں کہ اگر داعش کے غیر ملکی جنگجو پاکستان میں داخل نہ بھی ہو سکے تو اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ مقامی طور پر موجود انتہا پسند اس کے آلہ کار بن جائیں۔
سابق سیکرٹری داخلہ اور سلامتی کے امور کے ماہر تسنیم نورانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ داعش بلاشبہ ایک خطرے کی صورت موجود ہے جس سے نمٹنے کے لیے پاکستانی حکام کو ہر طرح سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
"جو لوگ اندر (ملک میں) آرہے ہیں ان پر نظر (حکام) نظر رکھے ہوئے ہیں جو باہر جا رہے ہیں ان پر نہیں یا بہت کم نظر رکھی ہوئی ہے۔ جو لوگ اس وقت باہر گئے ہیں جو ان (داعش) سے تربیت حاصل کر رہے ہیں یا ان کا طریقہ کار اپنا رہے ہیں تو ان میں سے جو دو چار جب واپس آئیں گے تو وہ اصل میں اس گروپ کا بیج ہوں گے تو ان پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔"
پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ وہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پرعزم ہے اور اس کی سکیورٹی فورسز نے پورے ملک میں دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں جس میں کئی اہم شدت پسندوں کو ہلاک و گرفتار کیا جا چکا ہے۔
فوج نے گزشتہ سال جون میں قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کی تھی جس میں اب تک تین ہزار سے زائد شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا بتایا گیا ہے۔
اتوار کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں کی جانے والی تازہ فضائی کارروائیوں میں کم ازکم 22 مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک اور ان کے چھ ٹھکانے تباہ کر دیے گئے۔
حکام کے مطابق شمالی وزیرستان کے نوے فیصد سے زائد علاقے کو شدت پسندوں سے پاک کر دیا گیا ہے لیکن ایک محدود علاقے میں اب بھی دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں جن کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔