پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات 2مارچ کو ہونے والے ہیں ۔ تمام سیاسی جماعتوں کے لئے یہ انتخابات اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن کچھ جماعتیں ایسی بھی ہیں جِن کی نمائندگی ہی ان انتخابات تک ایوان بالا سے ختم ہوجائے گی جبکہ دو جماعتیں ایسی ہیں جِن پر اِن کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اِن کی تفصیلات کچھ اِس طرح ہیں:
انتخابات میں بغیر مفاہمت کے نتائج کا جائزہ لیں تو بڑی جماعتوں میں پاکستان پیپلزپارٹی کو سب سے زیادہ فائدہ اور مسلم لیگ ق کو سب سے زیادہ نقصان ہو گا، کیوں کہ پی پی کے سینیٹرز کی تعداد اِس وقت بھی باقی جماعتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ دوسرے نمبر پر رہے گی مسلم لیگ نون ۔ لیکن، جماعت اسلامی ، پختونخواہ ملی پارٹی ، نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی شیر پاؤ سمیت ان چاروں جماعتوں کی نمائندگی ایوان بالا سے ختم ہوجائے گی، جبکہ ایم کیو ایم، بی این پی ۔اے اور مسلم لیگ فنکشنل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔
سینیٹ میں حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کی 27 نشستیں ہیں جن میں سے اس کے پانچ سینیٹرز مارچ تک ریٹائر ہو جائیں گے ۔مسلم لیگ ن کے موجودہ ایوان میں سات سینیٹرز ہیں ۔ مارچ میں اس کا صرف ایک ممبر ریٹائرہو گا ۔عوامی نیشنل کے چھ سینیٹرز ہیں جن میں سے صرف ایک ریٹائرڈ ہو گا ۔ موجودہ سینیٹ میں آزاد سینیٹرز کی تعداد گیارہ ہے جن میں سے چار ریٹائر ہو جائیں گے ۔
اس وقت مسلم لیگ ق کے 21 سینیٹرز ہیں ۔مارچ میں اس کے سب سے زیادہ 20 سینیٹرز ریٹائر ہو جائیں گے اور سینیٹ میں پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیں تو ممکنہ طور پر اس کے سات نئے سینئٹرز منتخب ہوں گے اور یوں ایوان بالامیں اس جماعت کی نمائندگی اکیس سے کم ہو کر صرف اٹھ رہ جائے گی ۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کے اس وقت دس سینیٹرز ہیں جن میں سے تین ممبران ریٹائر ہو جائیں گے ۔نیشنل پارٹی کے اس وقت دو اراکین سینیٹ ہیں جن میں سے ایک ریٹائر ہو جائے گا ۔
اس کے علاوہ، جماعت اسلامی کے تین ، پختونخواہ ملی پارٹی ، جمہوری وطن پارٹی اور پیپلزپارٹی شیر پاؤ کا ایک ، ایک نمائندہ اس وقت سینیٹ میں موجود ہے اور یہ سب مارچ میں ریٹائرہو رہے ہیں ۔لہذا، آئندہ انتخابات کے بعد اِن چاروں جماعتوں کی نمائندگی ایوان بالا سے ختم ہو جائے گی ۔ جماعت اسلامی نے2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ بھی کیا تھا۔ لہذا، اس کی نمائندگی ختم ہونا طے ہے۔
ایم کیو ایم کے اس وقت ایوان بالا میں چھ سینیٹرز ہیں جن میں سے تین ریٹائر ہو جائیں گے اور آئندہ انتخابات میں ممکنہ طور پر تین ہی نئے سینیٹرز منتخب ہوں گے لہذا اس جماعت کی تعداد بدستور تین ہی رہے گی۔ ادھر بی این پی ۔اے کے اس وقت تین سینیٹرز ہیں اور ان تینوں میں سے کوئی بھی ریٹائر نہیں ہو رہالہذا اس پر بھی سینیٹ انتخابات کے اثرات مرتب نہیں ہوں گے ۔
مسلم لیگ فنکشنل پر بھی سینیٹ انتخابات کا کوئی اثر نہیں ہو گا ۔ اس وقت ان کا ایک سینیٹر ہے جو مارچ میں ریٹائر ہو جائے گا لیکن ممکنہ طور پر اسے انتخابات میں ایک نشست مل جائے گی لہذا اس کی بھی ایوان بالات میں نمائندگی بدستور برقرار رہے گی ۔
یاد رہے کہ ہر تین سال کے وقفے کے بعد سینیٹ کی نصف نشستوں پر انتخابات ہوتے ہیں اور ایک سینیٹر چھ سال کی مدت کیلئے منتخب ہوتا ہے ۔ موجودہ سینیٹ میں سینیٹرز کی مجموعی تعداد 100 سو ہے۔ تاہم، اٹھارویں ترمیم میں اقلیتوں کیلئے ہر صوبے سے ایک نشست مختص کی گئی جِس کے بعد سینیٹ کی مجموعی تعداد بڑھ کر ایک سو چار ہو گئی ہے ۔ان میں سے 54نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔