پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقوں پر مبینہ امریکی میزائل حملوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہو گیا ہے اور بغیر پائلٹ کے جاسوس طیاروں یا ڈرونز کے ذریعے کیے جانے والی حالیہ کارروائیوں کا ہدف وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانے بنے ہیں۔
لندن میں قائم غیر سرکاری تنظیم ’بیورو آف انوسٹی گیٹیو جرنلزم‘ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ ہفتہ کو جنوبی وزیرستان ایجنسی کے علاقے انگور اڈہ میں شدت پسندوں کے ایک ٹھکانے پر ہونے والے حملے کے ساتھ ہی پاکستان کی قبائلی پٹی پر امریکی ڈرون حملوں کی تعداد 300 ہو گئی ہے۔
مقامی جنگجو کمانڈر مولوی نذیر کے ساتھیوں کے زیر استعمال مکان پر کیا گیا حملہ گزشتہ 48 گھنٹوں میں وزیرستان کی قبائلی پٹی میں اس نوعیت کی چوتھی کارروائی تھی۔
’بیورو آف انوسٹی گیٹیو جرنلزم‘ نے کہا ہے کہ 17 جون، 2004 سے اب تک ہونے والے ڈرون حملوں میں سے 248 امریکی صدر براک اوباما کے تین سالہ دور اقتدار میں ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی اوسط شرح ہر چوتھے روز ایک حملہ ہو گئی ہے۔
قابل اعتبار اور معروف خبر رساں اداروں اور اخبارات میں شائع ہونے والے اعداد و شمار کی بنیاد پر تنظیم کا کہنا ہے کہ ان 300 ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم 2,318 ہے، جن میں اکثریت عسکریت پسندوں کی ہے۔
لیکن ڈرون حملوں میں مرنے والوں میں 170 سے زائد بچوں سمیت کم از کم 386 عام شہری بھی شامل ہیں، جبکہ تنظیم کا کہنا ہے کہ مجموعی تعداد 775 تک بھی ہو سکتی ہے۔ حملوں میں 1,000 سے زائد افراد زخمی بھی ہو چکے ہیں۔
’بیورو آف انوسٹی گیٹیو جرنلزم‘ کا کہنا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے نے اگست میں شائع کی گئی اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ ڈرون حملوں میں 2,050 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں محض 50 شہری تھے۔
تنظیم کے مطابق قابل قدر شواہد منظر عام پر آنے کے باوجود امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں میں مئی 2010ء کے بعد سے کوئی شہری ہلاک نہیں ہوا ہے۔