امریکہ نے پاکستان کے لیے توانائی کے شعبے میں اپنی معاونت جاری رکھنے کا یقین دلاتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ پاکستان کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں ماحول دوست ٹیکنالوجی استعمال کرے گا۔
یہ بات پاکستان کے لیے امریکہ کے غیر فوجی ترقیاتی پروگراموں کی رابطہ کار سفیر رابن رافیل نے جمعہ کو اسلام آباد میں وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار سے ملاقات میں کہی۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیر خزانہ نے امریکی عہدیدار کو بتایا کہ توانائی کا شعبہ حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے اور حکومت ملکی وسائل سے استفادہ کرنے کے لیے تیزی سے کام کر رہی ہے تاکہ درآمدی وسائل پر انحصار کم ہوسکے۔
پاکستان کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے اور حالیہ برسوں میں اس بحران نے ملکی معیشت اور اقتصادی شعبے پر خاصے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
نواز شریف انتظامیہ ملک میں بجلی کے پیداواری منصوبے شروع کرنے کے علاوہ پہلے سے موجود بجلی گھروں کی استعداد کار بڑھانے اور بجلی کی ترسیل کے نظام کو بہتر بنانےپر کام کر رہی ہے جس میں امریکہ بھی پاکستان کی معاونت کرتا چلا آرہا ہے۔
وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے ملاقات میں رابن رافیل سے کاسا 1000 پاور ٹرانسمیشن منصوبے، داسو اور دیامر بھاشا ڈیم سمیت ملک میں پن بجلی کے منصوبوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
انھوں نے عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے پاکستان میں ترقی کے اشاریے کے تیسرے کامیاب جائزے کے بارے میں رابن رافیل کو آگاہ کیا۔
سفیر رافیل نے کہا کہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال بہتری کی جانب گامزن ہے اور انھیں توقع ہے کہ اس میں مزید پیش رفت ہوگی۔
امریکی عہدیدار نے وزیرخزانہ کو بتایا کہ امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی "یو ایس ایڈ" کے اعلیٰ عہدیدار راجیو شاہ بھی جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔
پاکستانی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ بیرونی دنیا سے امداد کی بجائے تجارت بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن حال ہی میں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سفیر رابن رافیل کا کہنا تھا کہ فی الوقت پاکستانی معیشت کو تیز رفتاری سے آگے بڑھانے کے لیے امریکی امداد اور امریکہ سے تجارت دونوں ہی کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے امریکی امداد اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک وہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش حالات پیدا کرنے کے قابل نہیں ہو جاتا۔
پاکستان کے لیے پانچ سالہ غیر فوجی ترقیاتی پروگرام کیری لوگر بل کے تحت تعلیم، صحت، سماجی بہبود اور پس ماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد فراہم کی جاتی ہے۔
یہ بات پاکستان کے لیے امریکہ کے غیر فوجی ترقیاتی پروگراموں کی رابطہ کار سفیر رابن رافیل نے جمعہ کو اسلام آباد میں وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار سے ملاقات میں کہی۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیر خزانہ نے امریکی عہدیدار کو بتایا کہ توانائی کا شعبہ حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے اور حکومت ملکی وسائل سے استفادہ کرنے کے لیے تیزی سے کام کر رہی ہے تاکہ درآمدی وسائل پر انحصار کم ہوسکے۔
پاکستان کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے اور حالیہ برسوں میں اس بحران نے ملکی معیشت اور اقتصادی شعبے پر خاصے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
نواز شریف انتظامیہ ملک میں بجلی کے پیداواری منصوبے شروع کرنے کے علاوہ پہلے سے موجود بجلی گھروں کی استعداد کار بڑھانے اور بجلی کی ترسیل کے نظام کو بہتر بنانےپر کام کر رہی ہے جس میں امریکہ بھی پاکستان کی معاونت کرتا چلا آرہا ہے۔
وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے ملاقات میں رابن رافیل سے کاسا 1000 پاور ٹرانسمیشن منصوبے، داسو اور دیامر بھاشا ڈیم سمیت ملک میں پن بجلی کے منصوبوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
انھوں نے عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے پاکستان میں ترقی کے اشاریے کے تیسرے کامیاب جائزے کے بارے میں رابن رافیل کو آگاہ کیا۔
سفیر رافیل نے کہا کہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال بہتری کی جانب گامزن ہے اور انھیں توقع ہے کہ اس میں مزید پیش رفت ہوگی۔
امریکی عہدیدار نے وزیرخزانہ کو بتایا کہ امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی "یو ایس ایڈ" کے اعلیٰ عہدیدار راجیو شاہ بھی جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔
پاکستانی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ بیرونی دنیا سے امداد کی بجائے تجارت بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن حال ہی میں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سفیر رابن رافیل کا کہنا تھا کہ فی الوقت پاکستانی معیشت کو تیز رفتاری سے آگے بڑھانے کے لیے امریکی امداد اور امریکہ سے تجارت دونوں ہی کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے امریکی امداد اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک وہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش حالات پیدا کرنے کے قابل نہیں ہو جاتا۔
پاکستان کے لیے پانچ سالہ غیر فوجی ترقیاتی پروگرام کیری لوگر بل کے تحت تعلیم، صحت، سماجی بہبود اور پس ماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد فراہم کی جاتی ہے۔