پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی ڈینیئل فیلڈمین نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد پاکستان کا پہلا دورہ بدھ کو مکمل کیا۔
امریکی سفارت خانے سے بدھ کو جاری ایک بیان کے مطابق ڈینیئل فیلڈمین نے امریکی ترقیاتی پروگراموں اور علاقائی تعاون و سلامتی سمیت مختلف دوطرفہ معاملات پر پاکستانی عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق سرتاج عزیز نے امریکہ نمائندہ خصوصی سے ملاقات میں کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز کرنا چاہتا ہے اور پڑوسی ملک میں مصالحت کے لیے ہر ممکن معاونت فراہم کرے گا۔
اُنھوں نے اس توقع کا بھی اظہار کیا کہ افغان صدر اشرف غنی کے دورہ پاکستان سے دونوں ملکوں کے درمیان امن و سلامتی، تجارت، تعمیر نو اور علاقائی تعاون پر پیش رفت ہو گی۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق سرتاج عزیر اور امریکی نمائندہ خصوصی کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دوطرفہ تعلقات کے علاوہ پاکستان کے افغانستان اور بھارت سے تعلقات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
بھارت سے تعلقات کے بارے میں سرتاج عزیز نے کہا کہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر حالیہ ’اشتعال انگیزی‘ کے باوجود اُن کا ملک بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانا چاہتا تھا۔
ملاقات میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا دونوں ملکوں کے درمیان طویل المدت شراکت داری کے اسٹریٹیجک مذاکرات کے تحت ورکنگ گروپوں کی سطح کی ملاقاتوں کا حالیہ دور رواں سال کے آخر تک مکمل کر لینا چاہیئے۔
بیان کے مطابق ڈینیئل فیلڈمین نے افغانستان میں امن اور استحکام کے علاوہ تجارت کے شعبوں میں پاکستان کے تعاون کو سراہا۔ بیان میں کہا گیا کہ امریکی نمائندہ خصوصی نے بھارت کے مسئلےکے حوالے سے کہا کہ دونوں ملکوں کو جلد از جلد مذاکرات کے عمل کا آغاز کرنا چاہیئے۔
ڈینیئل فیلڈ مین نے پاکستان افغانستان کے لیے بطور امریکہ کے نمائندہ خصوصی اپنی ذمہ داریاں اگست 2014 میں سنبھالی تھیں، جس کے بعد یہ اُن کا پہلا دورہ پاکستان تھا۔
ڈینیئل فیلڈمین نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے علاوہ اُمور خارجہ اور قومی سلامتی کے لیے وزیر اعظم کے مشیر سرتاج عزیز، وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقاتیں کیں۔
امریکی سفارتخانے کے بیان کے مطابق ملاقاتوں میں معاشی ترقی اور علاقائی استحکام کو فروغ دینے کے لیے دوطرفہ روابط کے مواقع پر بات چیت کی گئی اور مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے زیادہ مضبوط اشتراک کار کے طریقوں کا جائزہ لیا گیا۔