پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ جنوبی ایشیا سے متعلق امریکی انتظامیہ کی پالیسی پر اسلام آباد اور واشنگٹن کے نکتہ نظر میں فاصلہ ہے جسے کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں ترجمان محمد فیصل نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اس سلسلے میں رابطے ہیں۔
جنوبی ایشیا سے متعلق امریکہ کی جو پالیسی سامنے آئی ’’اس سے ہمیں اختلاف تھا۔۔۔ اس کے بعد بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔‘‘
رواں ہفتے افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن نے کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اسلام آباد سے متعلق سخت موقف اپنانے کے باوجود اُن کے بقول دہشت گردوں کی حمایت کے بارے میں پاکستان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
اس پر پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جنرل نکولسن کے بیان بھی اسی پالیسی کے تناظر میں ہے اور محمد فیصل کے بقول پاکستان پہلے سے اس سے اختلاف کر چکا ہے۔
ترجمان محمد فیصل نے کہا کہ جلد امریکہ کے وزیر دفاع جم میٹس بھی پاکستان آ رہے ہیں۔
’’فاصلوں کو کم کرنے کے لیے مذاکرات جاری ہیں اور امریکی وزیر دفاع پاکستان آ رہے ہیں۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ہی ملک بات چیت میں سنجیدہ ہیں۔
رواں ماہ ہی امریکہ کی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل جوزف ووٹل نے پاکستان کا دو روزہ دورہ مکمل کیا تھا۔
اپنے اس دورے کے دوران اُنھوں نے پاکستان کی عسکری قیادت سے ملاقاتیں کیں جس میں ٹرمپ انتظامیہ کی جنوبی ایشیا سے متعلق نئی پالیسی پر بھی بات چیت کی گئی۔
واضح رہے کہ اکتوبر میں امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جہاں اُنھوں نے پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت سے ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کے علاوہ خطے خاص طور پر افغانستان میں سلامتی کی صورت حال پر بات چیت کی تھی۔