پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن جاری رہے گا، اور اس مسئلے سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کیا جائے گا۔
اپنے دورہ امریکہ کے دوران جنرل راحیل شریف نے اس اعتماد کا اعادہ بھی کیا کہ پاکستانی فوج قبائلی علاقوں میں حاصل کامیابیوں کو مستحکم بناتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گی کہ دہشت گرد پاکستان کی سرزمین پر دوبارہ اپنے ٹھکانے نہ بنا سکیں۔
پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق جنرل راحیل شریف نے امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس سے بھی ملاقات کی، جس میں سلامتی کی موجودہ صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا اور اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ دوطرفہ روابط مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
ملاقات میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی فائرنگ اور گولہ باری کے بعد کی صورت حال سے متعلق بھی جنرل راحیل شریف نے سوزن رائس کو آگاہ کیا، جب کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور اعلیٰ سطحی روابط بھی زیر بحث آئے۔
اُدھر پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی کے ہمراہ امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات، کمیٹی برائے آرمڈ سروسز اور سیلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس کے ممبران سے ملاقاتیں کیں۔ اس موقع پر سینیٹر جان مک کین بھی موجود تھے۔
بیان کے مطابق سینیئر امریکی قانون سازوں نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائیوں سے عسکریت پسندوں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی فوج کے آپریشن سے حاصل ہونے والے نتائج قابل ستائش ہیں۔
کمیٹی کے ارکان کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فوج کی کوششوں کی تعریف کی گئی۔
امریکی سینیٹرز کے ساتھ ملاقات میں خطے کی مجموعی سلامتی کی صورتحال اور افغانستان سے متعلق امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
طرفین نے سلامتی کی دوطرفہ شعبے میں تعاون کو آئندہ آنے والے مہینوں میں مزید مضبوط اور فروغ دینے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل ان دونوں امریکہ کے دورے پر ہیں۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں گزشتہ پانچ ماہ سے پاکستانی فوج ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے جس میں حکام کے بقول اب تک لگ بھگ 1200 شدت پسند مارے جا چکے ہیں۔
شمالی وزیرستان کو القاعدہ سے منسلک طالبان شدت پسندوں کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا تھا اور امریکہ سمیت اس کے دیگر اتحادی یہاں فوجی کارروائی کا ایک عرصے سے مطالبہ کرتے آ رہے تھے۔
لیکن پاکستان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں فوجی کارروائی کا فیصلہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کرے گا۔