اسلام آباد —
افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی امریکی ایلچی مارک گراسمین پاکستانی حکام سے مذاکرات کے لیے ہفتہ کو دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے۔
اسلام آباد آمد کے فوراً بعد انھوں نے وزیرخارجہ حنا ربانی کھر سے ملاقات کی۔
دفترخارجہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ بات چیت میں دوطرفہ تعلقات سے متعلق اُموراور افغانستان میں قیام امن کی کوششیں زیر بحث آئیں۔
سیاسی قائدین کے علاوہ امریکی ایلچی کی پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات بھی متوقع ہے۔
مقامی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق اسلام آباد میں مارک گراسمین کی ملاقاتوں میں افغان مفاہتی عمل کے فروغ کے لیے باغی رہنماؤں سے رابطے اور انہیں مذاکرات کے لیے پاکستان کے راستے محفوظ راہداری فراہم کرنے کے معاملات بھی زیر بحث آئیں گے۔
امریکی نمائندے کا پاکستان کا دورہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے کہ جب افغان صدر حامد کرزئی نے حالیہ دنوں میں تواتر سے الزام لگایا ہے کہ افغانستان میں بدامنی کے لیے پاکستان کی سر زمین استعمال ہو رہی ہے۔ ان الزامات نے پاک افغان تعلقات کو مزید کشیدہ کیا ہے۔
پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر حسن عسکری رضوی کا خیال ہے کہ افغان صدر کی طرف سے پاکستان پر تنقید کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
’’دو وجوہات ہیں جب اندرونی کنٹرول کمزور ہو گا تو ملزم پاکستان کو ٹھہرائیں گے۔ دوسرا کرزئی کی صدارت کی معیاد ختم ہو رہی ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے قوم پرست موقف اختیار کریں گے۔ لیکن امریکی اس تناؤ کو حد میں رکھنے کے قائل ہیں۔‘‘
پروفیسر عسکری کہتے ہیں کہ ان حالات میں سہ فریقی کوششوں سے افغانستان میں مفاہمت کے عمل کو فروغ دینا بظاہر ممکن نہیں کیونکہ تینوں ملکوں کے مابین اعتماد کا فقدان اس راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
’’تینوں کے مقاصد میں اختلافات ہیں جس کی وجہ سے مشترکہ لائحہ عمل نہیں بن سکا۔
لیکن ان تینوں کو احساس ہے کہ یہ ایک دوسرے کو چھوڑ بھی نہیں سکتے اور یہی وجہ ہے کہ آپ منفی اور مثبت اشارے دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ اسی طرح چلتا رہے گا، تناؤ زیادہ ہو گا تو کبھی کم۔ لیکن تعلقات مکمل طور پر منقطع نہیں ہوسکتے۔‘‘
پرفیسر عسکری کہتے ہیں کہ مفاہمتی عمل میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے لیکن تینوں ملکوں کا مقصد ایک ہے کہ طالبان دوبارہ کابل میں اقتدار پر قابض نہ ہوسکیں۔
اسلام آباد آمد کے فوراً بعد انھوں نے وزیرخارجہ حنا ربانی کھر سے ملاقات کی۔
دفترخارجہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ بات چیت میں دوطرفہ تعلقات سے متعلق اُموراور افغانستان میں قیام امن کی کوششیں زیر بحث آئیں۔
سیاسی قائدین کے علاوہ امریکی ایلچی کی پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات بھی متوقع ہے۔
مقامی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق اسلام آباد میں مارک گراسمین کی ملاقاتوں میں افغان مفاہتی عمل کے فروغ کے لیے باغی رہنماؤں سے رابطے اور انہیں مذاکرات کے لیے پاکستان کے راستے محفوظ راہداری فراہم کرنے کے معاملات بھی زیر بحث آئیں گے۔
امریکی نمائندے کا پاکستان کا دورہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے کہ جب افغان صدر حامد کرزئی نے حالیہ دنوں میں تواتر سے الزام لگایا ہے کہ افغانستان میں بدامنی کے لیے پاکستان کی سر زمین استعمال ہو رہی ہے۔ ان الزامات نے پاک افغان تعلقات کو مزید کشیدہ کیا ہے۔
پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر حسن عسکری رضوی کا خیال ہے کہ افغان صدر کی طرف سے پاکستان پر تنقید کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
’’دو وجوہات ہیں جب اندرونی کنٹرول کمزور ہو گا تو ملزم پاکستان کو ٹھہرائیں گے۔ دوسرا کرزئی کی صدارت کی معیاد ختم ہو رہی ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے قوم پرست موقف اختیار کریں گے۔ لیکن امریکی اس تناؤ کو حد میں رکھنے کے قائل ہیں۔‘‘
پروفیسر عسکری کہتے ہیں کہ ان حالات میں سہ فریقی کوششوں سے افغانستان میں مفاہمت کے عمل کو فروغ دینا بظاہر ممکن نہیں کیونکہ تینوں ملکوں کے مابین اعتماد کا فقدان اس راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
’’تینوں کے مقاصد میں اختلافات ہیں جس کی وجہ سے مشترکہ لائحہ عمل نہیں بن سکا۔
لیکن ان تینوں کو احساس ہے کہ یہ ایک دوسرے کو چھوڑ بھی نہیں سکتے اور یہی وجہ ہے کہ آپ منفی اور مثبت اشارے دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ اسی طرح چلتا رہے گا، تناؤ زیادہ ہو گا تو کبھی کم۔ لیکن تعلقات مکمل طور پر منقطع نہیں ہوسکتے۔‘‘
پرفیسر عسکری کہتے ہیں کہ مفاہمتی عمل میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے لیکن تینوں ملکوں کا مقصد ایک ہے کہ طالبان دوبارہ کابل میں اقتدار پر قابض نہ ہوسکیں۔