وکی لیکس کی طرف سے جاری کی گئی تازہ ترین خفیہ سفارتی دستاویزات کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کو پاکستان جیسے اہم اتحادی ملکو ں کے ساتھ تعلقات میں درپیش مشکلات کا انکشاف ہوا ہے۔
پاکستان کے ساتھ تعلقات سے متعلق امریکی وزارت خارجہ کو بھیجی جانے والی معلومات میں اُن مسائل کا کھل کر ذکر کیا گیا ہے جن کی وجہ سے امریکی سفارت کاروں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی امریکہ کو پسند نہیں کرتے اور جس سے اس ملک میں امریکی ایجنڈا متاثر ہو رہا ہے۔
وکی لیکس کی دستاویزات میں امریکہ کی ساکھ کی بہتری کے لیے پاکستان میں عوامی سفارت کاری کی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت پر زوردیا گیا ہے تاکہ القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن جیسی شخصیات کی حمایت کو کم کیا جاسکے جو خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں روپوش ہے۔
جرمن جریدے در شپیگل کی ویب سائیٹ پر جاری کی گئی اس سفارتی دستاویز پر جنوری 2009 ء کی تاریخ درج ہے جس میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ بہت سے پاکستانی بن لادن کو ’ایک اسلامی ہیرو تصور کرتے ہیں کیونکہ امریکہ نے اُسے اپنا اولین دشمن قرار دیا ہے۔‘
اس کے علاوہ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ بن لادن کی گرفتاری کے لیے انعام کی امریکی پیشکش والے اشتہاری پوسٹر اور ماچس کی ڈبیہ کی تقسیم سے بن لادن کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا۔
نیویارک ٹائمز اخبار کے مطابق امریکہ کی خراب ساکھ بظاہر اُس خفیہ منصوبے کی راہ میں بھی رکاوٹ بنی ہے جس کے مطابق انتہائی افزودہ یورینیم کو ایک پاکستانی جوہری تنصیب سے باہر منتقل کرنا ہے۔اس مواد کی منتقلی کے لیے امریکی معاونت قبول کرنے کے لیے 2007 ء سے پاکستان پر دباؤ ڈالا جار ہا ہے کیونکہ امریکی حکام کو خدشہ ہے کہ یہ جوہری مواد غیر قانونی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
مئی 2009ء میں امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے اطلاع دی تھی کہ پاکستان امریکی ماہرین کو اس تنصیب میں جانے کی اجازت دینے سے انکار کررہے ہیں ۔ امریکی سفیر نے ایک پاکستانی عہدے دار کی طرف سے ظاہر کیے گئے خدشات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر مقامی میڈیا کو جوہری ایندھن کی منتقلی کی خبر لگ گئی تو وہ یقینا یہ کہہ کر اس کی تشہیر کریں گے کے امریکہ نے پاکستان کے جوہری ہتھیار اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔“
عراقی اور پاکستانی رہنماؤں پر شاہ عبداللہ کی سخت تنقید
وکی لیکس کی طرف سے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو جاری کی گئی خفیہ سفارتی دستاویزات کے مطابق بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے مذاکرات میں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری اور عراقی وزیر اعظم نوری المالکی پر’بے تکلفی‘سے کڑی تنقید کیا کرتے تھے۔
اس سال کے اوائل میں امریکی وزارت خارجہ کو بھیجی گئی معلومات کے مطابق سعودی شاہ نے ایک عراقی عہدے دار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ” تُم اور عراق میر ے دل میں بستے ہو لیکن وہ آدمی( وزیر اعظم نُوری کمال المالکی) نہیں“۔
بقول شاہ عبداللہ کے صدرزرداری پاکستان کی ترقی کی راہ میں ” سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور جب سر غیر صحت مند ہوتو سارا جسم متاثر ہوتا ہے۔“
تاہم صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے اپنے فوری ردعمل میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری سعودی عرب کے فرماں روا شاہ عبداللہ کو اپنا بڑا بھائی سمجھتے ہیں اور وکی لیکس کی طرف سے جاری کی گئی معلومات کا مقصددو اہم برادر مسلمان ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔