پاکستان کے مختلف علاقوں میں جمعہ کو بم دھماکوں اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں تین سکیورٹی اہلکار اور کم ازکم 13 مشتبہ شدت پسند ہلاک ہوگئے۔
جنوب مغربی بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے قریب مشتبہ شدت پسندوں نے سکیورٹی فورسز کے ایک قافلے پر حملہ کیا جس سے ایف سی کے تین اہلکار ہلاک اور پانچ زخمی ہوگئے۔
حکام کے مطابق سوسر کے علاقے میں فورسز کے قافلے پر پہاڑوں میں چھپے دہشت گردوں نے حملہ کیا اور موقع سے فرار ہوگئے۔
حملے کے بعد سکیورٹی فورسز کی اضافی نفری علاقے میں پہنچ گئی اور حملہ آوروں کی تلاش شروع کر دی گئی ہے۔
بلوچستان میں اس سے قبل بھی سکیورٹی فورسز پر ہلاکت خیز حملے ہوتے رہے ہیں جن کا الزام حکام کالعدم عسکریت پسند تنظیموں پر عائد کرتے رہے ہیں۔
ادھر شمال مغرب میں افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں چھ شدت پسند مارے گئے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق دتہ خیل کے علاقے میں سکیورٹی فورسز کے ایک دستے پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا جس پر کارروائی کرتے ہوئے فورسز نے چھ حملہ آوروں کو ہلاک کردیا۔
شمالی وزیرستان میں چھ ماہ قبل پاکستانی فوج نے ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف ضرب عضب کے نام سے بھرپور فوجی کارروائی شروع کی تھی جس میں اب تک حکام کے بقول 1200 سے زائد شدت پسند ہلاک کیے جا چکے ہیں جب کہ ان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔
دریں اثناء ایک اور قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں سات مشتبہ شدت ہلاک ہوگئے جن کا تعلق کالعدم شدت پسند تنظیم لشکر اسلام سے بتایا جاتا ہے۔
وادی تیراہ میں سپاہ کے علاقے سندانہ میں واقع عسکریت پسندوں کے ایک مرکز میں بارودی مواد کا زوردار دھماکا ہوا جس سے تین مشتبہ شدت پسند موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔
اطلاعات کے مطابق یہ دھماکا مرکز میں بم تیار کرنے کے لیے رکھے گئے بارودی مواد کے پھٹنے سے ہوا تاہم اس بارے میں کوئی مصدقہ معلومات حاصل نہیں ہوسکی۔
دھماکے کے بعد یہاں مزید شدت پسند پہنچے جنہیں علاقے میں مصروف عمل سکیورٹی فورسز نے نشانہ بنایا جس سے چار شدت پسند مارے گئے۔
گزشتہ اکتوبر میں پاکستانی فوج نے خیبر ایجنسی میں بھی شدت پسندوں کے خلاف خیبر ون کے نام سے کارروائی شروع کی تھی جس میں اب تک درجنوں شدت پسندوں کو ہلاک اور سینکڑوں کو حراست میں لیے جانے کا بتایا گیا ہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ذرائع ابلاغ کی رسائی نہ ہونے کے باعث یہاں ہونے والے واقعات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔