پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں مقامی حکومت نے سکیورٹی فورسز کی ایک کارروائی میں پانچ غیر ملکیوں کی ہلاکت کی تحقیقات کا حکم دیا ہے تاہم انسانی حقوق کے لیے سرگرم ادارے اس عمل میں شفافیت کو یقینی بنانے کا مطالبات کر رہے ہیں۔
واقعے کی ابتدائی تحقیقات کے بعد حکام نے انکشاف کیا ہے کہ تین خواتین سمیت چیچنیا کے یہ باشندے نہتے شہری تھے جب کہ پولیس اور نیم فوجی سکیورٹی فورس ’فرنٹیئر کور‘ کے اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بننے والی چھبیس سالہ ایک خاتون حاملہ تھی۔
منگل کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے مضافاتی علاقے خروٹ آباد میں ایک حفاظتی چوکی سے گزرنے والے چیچنیا کے ان باشندوں کو سکیورٹی فورسز نے مشترکہ کارروائی کر کے ہلاک کردیا تھا اور واقعہ کے بعد اعلیٰ حکام نے صحافیوں سے گفتگو میں دعویٰ کیا تھا کہ یہ سب افراد خودکش بمبار تھے۔
تاہم کوئٹہ پولیس کے سربراہ داؤد جونیجو نے بعد میں اپنا ابتدائی بیان بدلتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ یہ تمام افراد اپنے ہی بارود سے ہونے والے دھماکا میں ہلاک ہوئے۔
صوبائی حکومت نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے رکھا ہے تاہم جمعہ کو کوئٹہ پولیس کے سینیئر سرجن باقر شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ مرنے والوں کے جسموں پر صرف گولیوں کے نشانات ہیں اور ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ یہ لوگ بارود پھٹنے سے ہلاک ہوئے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اس واقعے پر شدید احتجاج اور اس کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
انسانی حقوق کی علمبردار ملک کی ایک بڑی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ زُہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وجوہات کچھ بھی ہوں، جس انداز میں ان افراد کو ہلاک کیا گیا ہے وہ قابل مذمت ہے۔
”اگر وہ دہشت گرد بھی تھے تو اُن کو روکنے کے بہت طریقے تھے بجائے یہ کہ بالکل سامنے سے اُن کو گولی مار کر ہلاک کرنا۔“
زُہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ اس واقعہ سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے ایسی صورت حال سے نمٹنے کی مناسب تربیت کے فقدان کے باعث بظاہر گھبراہٹ میں فائرنگ کی۔
اس افسوس ناک واقعہ پر مذمت اور مسلسل احتجاج کے بعد جمعہ کے روز صوبائی حکومت نے اس کی عدالتی تحقیقات بلوچستان ہائی کورٹ کے جج سے کرانے کا اعلان کیا ہے۔