ملک کے اقتصادی مرکز کراچی میں تشدد کے خاتمے اور شہر میں دیرپا امن کے لیے جمعہ کو قومی اسمبلی میں چوتھے روز بھی بحث جاری رہی جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے حصہ لیا اور اس مسئلے حل کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے پارلیمانی لیڈر فاروق ستار نے اپنے ایک تفصیلی خطاب کے موقع پر 500 ایسے مشتبہ افراد کی فہرست بھی ایوان میں پیش کی جو اُن کے بقول کراچی میں پرتشدد کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔
اُنھوں نے حقائق جاننے کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل کا بھی مطالبہ کیا۔ ”جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کے بغیر کراچی میں امن قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔“
فاروق ستار نے کہا کہ اُن کی جماعت کے قائد الطاف حسین نے کراچی میں قیامِ امن کے لیے فوج کو بلانے کا مطالبہ اس لیے کیا تاکہ بدامنی میں ملوث عناصر کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جا سکے۔
متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے فراہم کی گئی فہرست کے بارے میں وفاقی وزیر قانون مولا بخش چانڈیو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت اس کا جائزہ لینے کے بعد اقدامات کرے گی۔ اُنھوں نے کہا کہ کراچی میں اس وقت قیام امن کے لیے فوج کو بلانے کی ضرورت نہیں۔
”آئین میں اس بات کی گنجائش ہے کہ اگر حالات زیادہ خراب ہوں تو فوج کو بلایا جا سکتا ہے لیکن اس وقت صورت حال ایسی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ فوج کے آنے کا مطلب سیاسی لوگوں کی ناکامی ہے، صرف پیپلز پارٹی نہیں بلکہ کراچی کے منتخب سیاسی نمائندوں کی بھی ناکامی ہے۔“
مخلوط حکومت میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء زاہد خان کا کہنا ہے کہ اُن کی جماعت بھی کراچی کے حالات خراب کرنے والوں کی نشاندہی کے لیے عدالتی تحقیقاتی کمیشن کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ کراچی میں امن قائم کرنے کی کوششیں صرف اُسی صورت کامیاب ہو سکتی ہیں جب سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
اْدھر کراچی میں پرتشدد واقعات میں اضافے اور امن وامان کی خراب صورت حال کے تناظر میں وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے جمعہ کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ شہر کا امن خراب کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا اور شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن زہرہ یوسف کے مطابق کراچی میں پرتشدد واقعات میں رواں سال 800 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے 300 ہلاکتیں صرف جولائی کے مہینے میں ہوئیں۔