کراچی میں بدامنی سے متعلق سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت بدھ کو بھی عدالت عظمیٰ کی کراچی رجسٹری میں ہوئی۔
سماعت کے دوران وفاق کے وکیل بابر اعوان نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ کے سامنے اپنے دلائل جاری رکھے، جب کہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر انور منصور خان نے بھی عدالت کو اپنے موقف سے آگاہ کیا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کراچی میں کوئی لسانی یا فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں اور اس وقت حکومت پر اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہ کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
بابر اعوان نے دعویٰ کیا کہ بین الاقوامی اور علاقائی طاقتیں پاکستان کو کمزور اور ناکام ریاست بنانا چاہتی ہیں اور حکومت کے پاس بیرونی مداخلت کی رپورٹس موجود ہیں، جس پر چیف جسٹس افتخار چودھری نے سوال کیا کہ حکومت ان رپورٹس کی موجودگی کے باوجود کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتی؟ ’’کیا اس کے لیے بھی اسے (حکومت کو) مزید ساڑھے تین سال درکار ہیں؟‘‘
چیف جسٹس نے کہا کہ شہر کی تمام سیاسی جماعتیں امن چاہتی ہیں لیکن اچھے، برے لوگ سب جگہ ہوتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ایسے میں امن کیسے قائم ہوسکتا ہے جب سندھ پولیس کے سربراہ واجد درانی کہہ چکے ہیں کہ پولیس فورس کے 30 فیصد اہلکار مخصوص سیاسی جماعتوں کے ہمدرد ہیں۔
بینچ کے رکن جسٹس غلام ربانی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بھتہ خوری بھی دہشت گردی کے قانون کے زمرے میں آتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک ٹارگٹ کلر 100 افراد کو مار دیتا ہے، جس کی مکمل تحقیقاتی رپورٹ بھی بن جاتی ہے لیکن کوئی گواہی دینے نہیں آتا۔
سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر انور منصور خان نے کہا کہ کراچی میں ہونے والے فسادات کو لسانی کہا جا سکتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سارے معاملے کو لسانی رنگ نہ دیا جائے۔
بعد ازاں بینچ کی سربراہ نے مقدمہ کی سماعت جمعرات تک کے لیے ملتوی کردی۔