لاہور کی رہائشی اسما عزیز کی درخواست پر کاہنہ پولیس نےاس کے شوہر میاں فیصل سمیت تین افراد کے خلاف تشددکا مقدمہ درج کیا ہے۔
خاتون نے الزام عائد کیا ہے کہ اس کے شوہر نے اپنے ملازموں کے سامنے رقص سے انکار پر اس پر تشدد کیا، اس کے کپڑے پھاڑ دئے اور سر بھی مونڈھ دیا۔
پولیس کے مطابق یہ واقعہ لاہور کے علاقے ڈیفنس میں پیش آیا۔
خاتون کے مطابق اس کی چار سال قبل میاں فیصل نامی شخص سے محبت کی شادی ہوئی تھی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں اسما کا کہنا ہے کہ شادی کے بعد سے ہی اس پر شوہر نے تشدد کرنا شروع کر دیا تھا۔
لیکن اس بار شوہر نے اسے اپنے ملازموں کے سامنے مارا پیٹا۔ گٹر کا ڈھکن سر پر مارا۔ کپڑے پھاڑ دیے اور پائپ کے ساتھ باندھ کر برہنہ پھانسی دینے کی بھی دھمکی دی۔
اسما نے الزام لگایا ہے کہ وہ اپنی فریاد لے کر تھانہ کاہنہ گئی، لیکن پولیس نے مقدمہ درج کرنے کے لئے اس سے رشوت مانگی۔
معاملہ میڈیا پر آنے کے بعد وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پنجاب کے آئی جی سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی نے ایک اعلیٰ پولیس افسر کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی واقعے کا نوٹس لیا ہے اور کہا ہے کہ خاتون کے طبی معائنے کی رپورٹ کا انتظار ہے۔
شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ ملزمان کے خلاف زیر دفعہ 337 کی شق 5 اور 506 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل خاتون کے گھر گئے اور اسے انصاف دلوانے کی یقین دہانی کروائی۔
معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر ریاض حسین بھٹی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بدقسمی سے پاکستان میں عورت کو مرد کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا ہے۔
ان کے بقول انسانی حقوق کے معاملے پر حکومت نے کبھی توجہ نہیں دی۔ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے سے ایسے افراد کو شہہ ملتی ہے۔
ڈاکٹر ریاض بھٹی کے مطابق ایسا ظلم وہ لوگ کرتے ہیں جن کے نزدیک دوسروں کے جذبات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ یہ لوگ صرف اپنی انا کی تسکین چاہتے ہیں۔ ایسے واقعات کی بنیادی وجہ تعلیم کی کمی اور جہالت ہے۔
سوشل میڈیا پر اسما عزیر کی ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں وہ خود پر تشدد کی تفصیل بتا رہی ہیں۔ اس ویڈیو کو کئی ٹوئٹر صارفین نے شیئر کیا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم کے لئے سرگرم عبداللہ ملک کا کہنا ہے گھریلو تشدد کے تدارک کے لئے پنجاب اسمبلی میں ایک قانون زیر غور آیا تھا جس میں ایسے مردوں کو ایک کڑا پہنانے کی تجویز دی گئی تھی تاکہ ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جاسکی۔
عبداللہ ملک کا کہنا تھا کہ انصاف کی پہلی دہلیز پولیس ہوتی ہے، لیکن وہاں کے حالات ہم سب کے سامنے ہیں۔ ایسے واقعات میں ملزم کو مثال نہیں بنایا جاتا بلکہ اکثر واقعات میں ملزم رہا ہو جاتے ہیں۔
عبداللہ ملک کا کہنا تھا کہ بدقسمی سے ہم عورت کو نہ تو معاشی انصاف دے سکے اور نہ ہی تحفظ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے موثر قانون سازی کی جائے۔
پاکستان میں خواتین کے تحفظ سے متعلق قوانین کے باوجود خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
خواتین کے تحفظ کے انڈیکس میں 153 ممالک میں پاکستان 150 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ ملکی آبادی کی 27 فیصد خواتین کسی نے کسی طرح اپنے شوہر یا خاندان کے دیگر افراد کے ہاتھوں تشدد کانشانہ بنتی ہیں۔
2006 میں پاکستان میں خواتین کے تحفظ کا قانون نافذ کیا گیا تھا جس میں خواتین پر ان کی مرضی کے خلاف ریپ کرنے پر سخت سزائیں تجویز کی گئیں تھیں۔ تاہم ماہرین کے مطابق پاکستان میں قوانین میں موجود خامیوں کا فائدہ اٹھا کر خواتین پر تشدد کرنے والے اکثر بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔