ایک غیر سر کاری جائزے کے مطابق 2009ء کے دوران پاکستان میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں گذشتہ سال کے مقابلے میں 13فیصد اضافہ ہوا اور یہ واقعات صرف دور افتادہ علاقوں تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ اسلام آباد سمیت دیگر بڑے شہر بھی تھے۔
دارالحکومت میں بدھ کے روز جاری ہونے والی عورت فاوٴنڈیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2008ء کے دوران خواتین پر مختلف نوعیت کے تشدد کے تقریباََ ساڑھے سات ہزار واقعات ہوئے جو 2009ء میں ساڑھے آٹھ ہزار سے تجاوز کر گئے ۔
مختلف مقامی اور علاقائی اخبارات اور دوسرے ذرائع سے حاصل شدہ معلومات پر مبنی یہ تعداد صرف ان واقعات کی ہے جو درج ہوئے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ منظر عام پر نہ آنے والے تشددکے واقعات اس سے کئی گنا زیادہ ہو سکتے ہیں۔
تنظیم کی سالانہ رپورٹ کے مطابق تشدد کی اقسام میں سب سے زیادہ شرح خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیے جانے کی سامنے آئی جب کہ دیگر اقسام میں اغواء ، جنسی زیادتی ، گھریلو تشدد ، تیزاب پھینکے جانے اور چولھا پھٹنے کے واقعات قابل ذکر ہیں۔
رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں ہوئے جہاں ایسے واقعات کی تعداد تقریباََ 5722رہی جب کہ دوسرے نمبر پر سندھ میں 1762، خیبر پختون خواہ میں 655، بلوچستان میں 237 اور دارالحکومت اسلام آباد میں 172واقعات ہوئے۔
رپورٹ میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کے حوالے سے حکومت کو اگرچہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے لیکن سابق وفاقی وزیر اور حکمران پیپلز پارٹی کی ممبر قومی اسمبلی شیری رحمان کے مطابق اس صورت حال کا ذمہ دار کوئی ایک ادارہ یا طبقہ نہیں بلکہ پورا معاشرہ اور بالخصوص ’ ’استثنیٰ“ یا درگزرکا کلچرہے۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں اُنھوں نے کہا کہ” قومی اسمبلی کے ہوتے ہوئے قانون سازی اگرچے ہمارا کام ہے لیکن ضروری یہ ہے کہ مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور اس ضمن میں پولیس کی تفتیش اور عدالتوں میں مقدمات چلائے جانے کے نظام کو مزید موٴثر بنایا جائے“۔