پشاور سے ملحقہ خیبر ایجنسی میں حقوق نسواں کی سرگرم خاتون کارکن کے قتل کے بعد پاکستان کے شمالی مغربی صوبے خیبر پختون خواہ اور قبائلی علاقوں میں غیر سرکاری تنظیموں سے وابستہ افراد بالخصوص خواتین خوف و ہراس کا شکار ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ’سویرا‘ نامی غیر سرکاری تنظیم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فریدہ آفریدی کو بدھ کی صبح خیبر ایجنسی میں نقاب پوش حملہ آوروں نے اس وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب وہ معمول کے مطابق گاڑی میں گھر سے پشاور میں واقع اپنے دفتر جا رہی تھیں۔
خیبر ایجنسی میں حالیہ مہینوں میں حقوق انسانی کے کارکنوں پر یہ پہلا مہلک حملہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ایک سرگرم رکن ظرطیف خان آفریدی کو بھی عسکریت پسندوں نے قتل کر دیا تھا۔
تشدد کے ان واقعات خاص طور پر فریدہ آفریدی کو دن دہاڑے گولیاں مار کر ہلاک کرنے کے واقعے کے بعد خیبر پختون خواہ اور قبائلی علاقوں میں غیر سرکاری تنظیموں سے منسلک کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
خیبر پختون خواہ کے پہاڑی ضلع لوئر دیر میں انجمن بہبود خواتین نامی غیر سرکاری تنظیم کی سربراہ شاد بیگم کا شمار اُن باہمت خواتین میں ہوتا ہے جو اس علاقے میں کئی سالوں سے حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہیں۔
رواں سال شاد بیگم کی خدمات کے اعتراف میں انھیں امریکہ میں حوصلہ مند خواتین کے بین الاقوامی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، لیکن خیبر ایجنسی میں پیش آنے والے واقعہ سے وہ بھی خوف زدہ ہیں۔
’’اس طرح کے واقعات سے ہمیشہ ہماری حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور خوف و ہراس کو بھی تقویت ملتی ہے ... لوگوں سے ملنا جلنا کم کرنا پڑتا ہے۔‘‘
شاد بیگم نے کہا کہ خواتین کارکنوں پر حملوں سے حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی خواتین کے لیے بالخصوص قبائلی علاقوں میں کام کرنا اب تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔
’’مجھے نہیں لگتا کہ اس طرح کی صورت حال میں اب فاٹا (وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں) کی کوئی لڑکی کام کرنے کے لیے تیار ہو گی۔‘‘
افغان سرحد سے ملحقہ خیبر ایجنسی کے علاقے میں طالبان شدت پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں میں حالیہ دنوں میں اضافہ ہوا ہے جن کا ہدف بننے والوں میں سرکاری فوج، حکومت کے حامی قبائل اور عام شہری بھی شامل ہیں۔
اس خطے میں فوجی اور نیم فوجی دستوں نے جنگجوؤں کے خاتمے کے لیے تواتر سے آپریشن بھی کیے ہیں تاہم بظاہر ان عناصر کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جاسکا ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ’سویرا‘ نامی غیر سرکاری تنظیم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فریدہ آفریدی کو بدھ کی صبح خیبر ایجنسی میں نقاب پوش حملہ آوروں نے اس وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب وہ معمول کے مطابق گاڑی میں گھر سے پشاور میں واقع اپنے دفتر جا رہی تھیں۔
خیبر ایجنسی میں حالیہ مہینوں میں حقوق انسانی کے کارکنوں پر یہ پہلا مہلک حملہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ایک سرگرم رکن ظرطیف خان آفریدی کو بھی عسکریت پسندوں نے قتل کر دیا تھا۔
تشدد کے ان واقعات خاص طور پر فریدہ آفریدی کو دن دہاڑے گولیاں مار کر ہلاک کرنے کے واقعے کے بعد خیبر پختون خواہ اور قبائلی علاقوں میں غیر سرکاری تنظیموں سے منسلک کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
خیبر پختون خواہ کے پہاڑی ضلع لوئر دیر میں انجمن بہبود خواتین نامی غیر سرکاری تنظیم کی سربراہ شاد بیگم کا شمار اُن باہمت خواتین میں ہوتا ہے جو اس علاقے میں کئی سالوں سے حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہیں۔
رواں سال شاد بیگم کی خدمات کے اعتراف میں انھیں امریکہ میں حوصلہ مند خواتین کے بین الاقوامی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، لیکن خیبر ایجنسی میں پیش آنے والے واقعہ سے وہ بھی خوف زدہ ہیں۔
’’اس طرح کے واقعات سے ہمیشہ ہماری حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور خوف و ہراس کو بھی تقویت ملتی ہے ... لوگوں سے ملنا جلنا کم کرنا پڑتا ہے۔‘‘
شاد بیگم نے کہا کہ خواتین کارکنوں پر حملوں سے حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی خواتین کے لیے بالخصوص قبائلی علاقوں میں کام کرنا اب تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔
’’مجھے نہیں لگتا کہ اس طرح کی صورت حال میں اب فاٹا (وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں) کی کوئی لڑکی کام کرنے کے لیے تیار ہو گی۔‘‘
افغان سرحد سے ملحقہ خیبر ایجنسی کے علاقے میں طالبان شدت پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں میں حالیہ دنوں میں اضافہ ہوا ہے جن کا ہدف بننے والوں میں سرکاری فوج، حکومت کے حامی قبائل اور عام شہری بھی شامل ہیں۔
اس خطے میں فوجی اور نیم فوجی دستوں نے جنگجوؤں کے خاتمے کے لیے تواتر سے آپریشن بھی کیے ہیں تاہم بظاہر ان عناصر کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جاسکا ہے۔