رسائی کے لنکس

'جو گڑھا بلے بازوں نے کھودا وہ بہترین بالنگ کے لیے بھی بھرنا مشکل تھا'


انگلینڈ نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں پاکستان کو پانچ وکٹوں سے شکست دے کر دوسری مرتبہ ٹائٹل اپنے نام کر لیا ہے۔ پاکستانی شائقین میلبرن کی گراؤنڈ میں 1992 کی تاریخ دہرائے جانے کے انتظار میں تھے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

وکٹ کیپر جوس بٹلر کی قیادت میں انگلش ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیت کر محدود اوورز کرکٹ کی تاریخ میں وہ پہلی ٹیم بن گئی جو بیک وقت پچاس اوورز اور بیس اوورزکی کرکٹ کی فاتح ہے۔

انگلینڈ نے 2019 میں نیوزی لینڈ کو شکست دے کر 50 اوورز کرکٹ کا فائنل جیتا تھا اور تین برس بعد پاکستان کو زیر کرکے ٹی ٹوئنٹی چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔


انگلینڈ کی یہ فتح انہیں ویسٹ انڈیز کے برابر لے آئی جو اس سے قبل دو مرتبہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے والی واحد ٹیم تھی۔اس شکست کے ساتھ پاکستان کا 13 سال بعد ٹی ٹوئنٹی چیمپئن بننے کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔



کرکٹ مبصرین پاکستان کی شکست کے باوجود بالرز کی عمدہ کارکردگی سے مطمئن

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں شان دار کارکردگی پر ہر طرف بین اسٹوکس کا چرچا ہے جنہوں نے مشکل حالات میں وکٹ پر ٹھہر کر ٹیم کو سنبھالا اور ٹرافی جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔

کرکٹ ویب سائٹ کرک ٹریکر نے بین اسٹوکس کی شان دار اننگز پر ایک کولاج بناکر انہیں خراج تحسین پیش کیا جس میں انہیں انگلینڈ کی تین بڑی کامیابیوں، ایشز 2019، ورلڈ کپ 2019 اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 ، میں وننگ شاٹ مارتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔


اگر بات پاکستانی کرکٹرز کی کی جائے تو سابق ٹیسٹ کرکٹر شعیب اختر نے سوشل میڈیا پر ٹوٹے ہوئے دل کا نشان بنا کر اپنے جذبات کا اظہار کیا، تو 2009 ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے ہیرو شاہد آفریدی نے پاکستان کی شکست پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ایونٹ میں رنرز اپ بننے پر انہیں خود پر فخر ہونا چاہیے۔

انہوں نے پاکستان کے بلے بازوں کو قصوروار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے پاکستان ٹیم فائنل نہ جیت سکی۔

بوم بوم آفریدی نے ٹوئٹ کی کہ جو گڑھا بلے بازوں نے کھود دیا تھا، دنیا کی بہترین بالنگ کے لیے بھی اسے بھرنا مشکل تھا۔


کرکٹ مبصر ساج صادق کے بقول پاکستان ٹیم کا بالنگ اٹیک شاید میگا ایونٹ کا واحد اٹیک تھا جو انگلش ٹیم کو 137 تک پہنچنے میں مزاحمت کرسکتا تھا۔


ان کی بات کی تائید بھارتی کمنٹیٹر ہارشا بھوگلے نے بھی ٹوئٹ کے ذریعے کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی بالرز نے جس طرح 137 رنز کا دفاع کرنے کی کوشش کی، بہت کم ٹیمیں ہی ایسا کرسکتی ہیں۔


میچ میں بدلتی ہوئی صورتِ حال پر اسپورٹس پریزینٹر نجیب الحسنین نے سوال اٹھا یا کہ ایک ایسی وکٹ جس پر پاکستان سے رنزنہ بنے وہ بیٹنگ پچ کیسے ہوگئی؟


اسپورٹس جرنلسٹ عمران صدیق نے بھارتی ٹرولز کو یاد دلایا کہ ان کی ٹیم انگلینڈ کے خلاف 16 اوورز میں ایک وکٹ بھی نہیں لے سکی تھی جب کہ پاکستان نے ان کے اوپنر کو پہلے ہی اوور میں واپس بھیج دیا۔


سوشل میڈیا پر اس ورلڈ کپ کا موازنہ 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ سے ہورہا تھا جس پر اسپورٹس جرنلسٹ سلیم خالق نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ 1992 میں تو ایسا نہیں ہوا تھا۔


دوسری جانب معروف کرکٹ تجزیہ کار عالیہ رشید کے مطابق بین اسٹوکس کی اس میچ وننگ اننگز سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔


اسی طرح صحافی آصف خان نے اس میچ میں بین اسٹوکس کی کامیابی کو 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل سے جوڑ کر کہا کہ بین اسٹوکس کے لیے سرخرو ہونے کا موقع تھا جس سے اُنہوں نے فائدہ اُٹھایا۔


شوبز شخصیات بھی گرین شرٹس کے بالنگ اٹیک کی گرویدہ

پاکستان ٹیم کی فائنل میں شکست کے باوجود کئی معروف شوبز شخصیات بھی اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھانے میں مصروف رہیں، معروف گلوکار و اداکار علی ظفر نے ٹیم کی کارکردگی پر انہیں مبارکباد دی اور کہا کہ قسمت آج انگلینڈ کے ساتھ تھی۔


اداکار و گلوکار ہارون شاہد کے مطابق یہ میچ بین اسٹوکس کے لیے اہمیت کاحامل ہے،ویسٹ انڈیز کے خلاف چار چھکے کھا کر انہوں نے ورلڈ کپ ہارا تھالیکن آج اسی ٹیم کو فائنل جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔

  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

XS
SM
MD
LG