اسلام آباد —
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بدھ کو یوم مزدور منایا گیا جس کا مقصد معاشرے میں مزدوروں کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے اظہار یکجہتی کرنا ہے۔
یکم مئی 1886ء کو امریکی شہر شکاگو میں محنت کشوں کی جانب سے کام کے اوقات کو آٹھ گھنٹے مقرر کرنے کے لیے چلائی گئی ایک مہم کے دوران ان پر مبینہ طور پر پولیس کی طرف سے کی جانے فائرنگ کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس تحریک میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے اور مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کے اعتراف میں 1891 سے یوم مزدور منایا جانے لگا۔
بدھ کو پاکستان میں بھی یوم مزدور کی مناسبت سے ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں مختلف مزدور تنظیموں کی طرف سے ریلیوں اور تقاریب کا انعقاد کیا گیا۔
عالمی ادارہ محنت ’آئی ایل او‘ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 33 فیصد محنت کشوں پر مشتمل ہے جن کی تعداد لگ بھگ ساڑھے پانچ کروڑ بنتی ہے۔
ملک کی لیبر فورس کا 45 فیصد زراعت، 29 فیصد ہوٹلوں اوردیگر تجارتی و کاروباری شعبے، 13 فیصد پیداوار، چھ فیصد تعمیرات اور پانچ فیصد ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبے سے وابستہ ہے۔
نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے یوم مزدور پراپنے پیغام میں کہا ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی محنت اور اس کے انسانی وسائل میں مضمر ہے۔
ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ ایسے معاشرے جو اپنے محنت کشوں کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے وہ ترقی نہیں کرسکتے۔ ان کے بقول حکومت مزدروں اور محنت کشوں کا معیار زندگی بہتر کرنے لیے پرعزم ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لیے حکومتی سطح پر کئی اعلانات کیے گئے جن میں کم سے کم اجرت سات سے آٹھ ہزار مقرر کرنا بھی شامل تھا۔
لیکن پاکستان ورکرز فیڈریشن کے ایک عہدیدار ظہور اعوان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اعلانات اور سرکاری دعوؤں کے باوجود ملک میں محنت کشوں کی حقیقی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔
’’جو تو آرگنائزڈ سیکٹرز ہیں جہاں یونینز ہیں وہاں تو محنت کشوں کےحقوق کے لیے کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے لیکن باقی جگہوں پر تو صورتحال بہت ہی خراب ہے۔۔۔ لیبر قوانین جتنے بھی ہیں ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں مہنگائی میں اضافے کے تناسب سے نا تو محنت کشوں کے معاوضوں میں اضافہ ہوا اور نہ ہی ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی عملی اقدام سامنے آیا جو کہ ان کے بقول ایک تکلیف دہ صورتحال ہے۔
یکم مئی 1886ء کو امریکی شہر شکاگو میں محنت کشوں کی جانب سے کام کے اوقات کو آٹھ گھنٹے مقرر کرنے کے لیے چلائی گئی ایک مہم کے دوران ان پر مبینہ طور پر پولیس کی طرف سے کی جانے فائرنگ کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس تحریک میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے اور مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کے اعتراف میں 1891 سے یوم مزدور منایا جانے لگا۔
بدھ کو پاکستان میں بھی یوم مزدور کی مناسبت سے ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں مختلف مزدور تنظیموں کی طرف سے ریلیوں اور تقاریب کا انعقاد کیا گیا۔
عالمی ادارہ محنت ’آئی ایل او‘ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 33 فیصد محنت کشوں پر مشتمل ہے جن کی تعداد لگ بھگ ساڑھے پانچ کروڑ بنتی ہے۔
ملک کی لیبر فورس کا 45 فیصد زراعت، 29 فیصد ہوٹلوں اوردیگر تجارتی و کاروباری شعبے، 13 فیصد پیداوار، چھ فیصد تعمیرات اور پانچ فیصد ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبے سے وابستہ ہے۔
نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے یوم مزدور پراپنے پیغام میں کہا ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی محنت اور اس کے انسانی وسائل میں مضمر ہے۔
ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ ایسے معاشرے جو اپنے محنت کشوں کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے وہ ترقی نہیں کرسکتے۔ ان کے بقول حکومت مزدروں اور محنت کشوں کا معیار زندگی بہتر کرنے لیے پرعزم ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لیے حکومتی سطح پر کئی اعلانات کیے گئے جن میں کم سے کم اجرت سات سے آٹھ ہزار مقرر کرنا بھی شامل تھا۔
لیکن پاکستان ورکرز فیڈریشن کے ایک عہدیدار ظہور اعوان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اعلانات اور سرکاری دعوؤں کے باوجود ملک میں محنت کشوں کی حقیقی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔
’’جو تو آرگنائزڈ سیکٹرز ہیں جہاں یونینز ہیں وہاں تو محنت کشوں کےحقوق کے لیے کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے لیکن باقی جگہوں پر تو صورتحال بہت ہی خراب ہے۔۔۔ لیبر قوانین جتنے بھی ہیں ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں مہنگائی میں اضافے کے تناسب سے نا تو محنت کشوں کے معاوضوں میں اضافہ ہوا اور نہ ہی ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی عملی اقدام سامنے آیا جو کہ ان کے بقول ایک تکلیف دہ صورتحال ہے۔