دنیا بھر میں ہفتہ کو اسٹریٹ چلڈرن کا عالمی دن منایا گیا جس کا مقصد ان بے آسرا اور گلیوں میں بے کار گھومتے بچوں کو معاشرے کا صحت مند حصہ بنانے کے لیے آواز بلند کرنا اور اس کے لیے اقدامات پر زور دینا ہے۔
پاکستان میں بھی ایسے بچوں کی تعداد کچھ کم نہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر نہ تو اسکول جاتے ہیں اور نہ ہی کسی روزگار سے وابستہ ہیں۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے روح رواں ضیا احمد اعوان نے پاکستان میں اسٹریٹ چلڈرن کی حالت زار پر تشویش کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ ایسے بچے باآسانی دہشت گردوں کے آلہ کار بن سکتے ہیں کیونکہ ماضی میں اکثر جرائم پیشہ عناصر اور منشیات فروش ان بچوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ گھریلو تشدد اور معاشی مسائل کی بنا پر بھی بہت سے بچے سڑک پر آنےپر مجبور ہو جاتے ہیں۔
"اگر آپ بچوں کو اسی طرح اسٹریٹس پر رہنے دیں گے انھیں اسکول نہیں بھیجیں گے ان پر ظلم کریں گے تو آپ کیا توقع کرتے ہیں کہ یہ بہت اچھے شہری بنیں گے، ایسا نہیں ہوسکتا۔ ۔ ۔ چاہیے یہ کہ اس پر غور و فکر کے بعد لائحہ عمل بنایا جائے اور جو فنڈز ہیں وہ صرف عمارتوں اور تنخواہوں پر خرچ نہ ہوں وہ صرف ان بچوں کے لیے ہوں۔"
ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایسے بچوں کی کفالت اور دیکھ بھال کے لیے ادارے تو قائم کر دیتی ہے لیکن ان اداروں کے موثر کردار کو یقینی بنانے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
اسٹریٹ چلڈرن کی حالت زار اپنی جگہ ایک تکلیف دہ امر ہے لیکن دوسری طرف حال ہی میں برازیل میں ہونے والے اسٹریٹ چلڈرن فٹ بال ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔
گلیوں میں گھومتے ان بچوں کو کراچی کی ایک فلاحی تنظیم نے اس کھیل کے لیے سہولت فراہم کی تھی اور اس تازہ کامیابی پر ملک بھر میں ان بچوں کی کاوشوں کو خوب سراہا جا رہا ہے۔
پاکستان میں بھی ایسے بچوں کی تعداد کچھ کم نہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر نہ تو اسکول جاتے ہیں اور نہ ہی کسی روزگار سے وابستہ ہیں۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے روح رواں ضیا احمد اعوان نے پاکستان میں اسٹریٹ چلڈرن کی حالت زار پر تشویش کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ ایسے بچے باآسانی دہشت گردوں کے آلہ کار بن سکتے ہیں کیونکہ ماضی میں اکثر جرائم پیشہ عناصر اور منشیات فروش ان بچوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ گھریلو تشدد اور معاشی مسائل کی بنا پر بھی بہت سے بچے سڑک پر آنےپر مجبور ہو جاتے ہیں۔
"اگر آپ بچوں کو اسی طرح اسٹریٹس پر رہنے دیں گے انھیں اسکول نہیں بھیجیں گے ان پر ظلم کریں گے تو آپ کیا توقع کرتے ہیں کہ یہ بہت اچھے شہری بنیں گے، ایسا نہیں ہوسکتا۔ ۔ ۔ چاہیے یہ کہ اس پر غور و فکر کے بعد لائحہ عمل بنایا جائے اور جو فنڈز ہیں وہ صرف عمارتوں اور تنخواہوں پر خرچ نہ ہوں وہ صرف ان بچوں کے لیے ہوں۔"
ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایسے بچوں کی کفالت اور دیکھ بھال کے لیے ادارے تو قائم کر دیتی ہے لیکن ان اداروں کے موثر کردار کو یقینی بنانے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
اسٹریٹ چلڈرن کی حالت زار اپنی جگہ ایک تکلیف دہ امر ہے لیکن دوسری طرف حال ہی میں برازیل میں ہونے والے اسٹریٹ چلڈرن فٹ بال ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔
گلیوں میں گھومتے ان بچوں کو کراچی کی ایک فلاحی تنظیم نے اس کھیل کے لیے سہولت فراہم کی تھی اور اس تازہ کامیابی پر ملک بھر میں ان بچوں کی کاوشوں کو خوب سراہا جا رہا ہے۔