پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں بتایا کہ سعودی عرب نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف لڑائی میں پاکستان سے زمینی فوج کے علاوہ فضائی اور بحری مدد کے حصول کی اُمید کا اظہار کیا ہے۔
خواجہ آصف نے یہ بات یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں جاری فضائی کارروائیوں کے بعد کی صورت حال اور اس جنگ میں پاکستان کے ممکنہ کردار پر بحث کے لیے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کی طرف سے پالیسی بیان میں کہی۔
وزیردفاع نے کہا کہ سعودی کی حکومت کی طرف سے اس اُمید کا اظہار کیا گیا کہ یمن میں جاری آپریشن میں پاکستان کی طرف سے ’’زمینی فوج، فضائیہ اور بحریہ‘‘ کی مدد فراہم کی جائے۔
’’ان تینوں چیزوں کے بارے میں گزشتہ بارہ، تیرہ دنوں میں مختلف اوقات میں سعودی عرب نے اپنی ضروریات سے ہمیں آگاہ کیا۔ اور جو وفد میں وہاں لے کر گیا تھا اس میں اُنھوں نے بحری جہازوں اور ائیر کرافٹس کا بھی ذکر کیا، اور اپنی ضرورت کا اعادہ کیا۔‘‘
پاکستان کی طرف سے اب تک یہ کہا جاتا رہا ہے کہ یمن میں جنگ کے لیے فوجیں بھیجنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے البتہ اگر سعودی عرب کی سرحدی خودمختاری یا جغرافیائی سالمیت کو خطرہ ہوا تو پاکستان کی طرف سے اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
حکومت کے اسی موقف کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے پالیسی بیان میں ایک بار پھر دہرایا۔
وزیراعظم نواز شریف کے حالیہ دورہ ترکی کا ذکر کرتے ہوئے اُنھوں نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے قانون سازوں کو یہ بھی بتایا کہ پاکستان اور ترکی دونوں کو یمن میں غیر ریاستی عناصر کی جانب سے ایک منتخب حکومت کو ہٹانے پر تشویش ہے، اور دونوں ملک یہ سمجھتے ہیں کہ یمن کا تنازع پورے خطے کو بدامنی میں دھکیل سکتا ہے۔
خواجہ آصف نے بتایا کہ پاکستان اس تنازع کے پرامن حل کا خواہاں اور اس کے لیے پاکستانی حکومت کوششوں میں مصروف ہے۔ اُن کے بقول اسی سلسلے میں ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف بھی آٹھ اپریل کو اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔
گزشتہ ہفتے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے ترکی کا دورہ کر کے وہاں کی سیاسی قیادت سے اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
پیر کی صبح شروع ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف دیگر مصروفیات کے باعث شریک نہیں ہو سکے تھے اس لیے حزب مخالف کی جماعتوں کے مطالبے پر خواجہ آصف کے بیان کے بعد اجلاس شام پانچ بجے تک ملتوی کر دیا گیا تھا، جو شام میں دوبارہ شروع ہوا۔
پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی طرف سے اس اہم معاملے پر بحث کے بعد فوجیں بھیجنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ متوقع ہے۔
پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتوں اور مختلف سماجی حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو اس لڑائی میں فریق نہیں بننا چاہیئے۔
حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو اس معاملے پر اس حد تک کردار ادا کرنا چاہیے جس حد تک وہ برداشت کر سکتا ہے۔