معروف قانون دان اور پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اعتزاز احسن نے کہا ہے صدر آصف علی زرداری کو آئین کے تحت ناصرف ملک میں بلکہ ’ویانا کنونشن‘ کے تحت بیرون ملک بھی عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔
ہفتے کو لاہور میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا ہے کہ متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس ’این آر او‘ کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد اگر حکومت صدر زرداری کے خلاف مقدمات کی بحالی کے لیے سوئس حکام کو خط لکھ بھی دیتی ہے تو انھیں ’’میں سمجھتا ہوں کہ صدر پاکستان کو سوئیٹزلینڈ میں بھی مکمل استثنیٰ حاصل ہو گا ویانا کنونشن کے تحت‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ حکام کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق سوئس حکام کو خط لکھے جانے کے معاملے پر ان کا موقف اپنی جماعت پیپلز پارٹی کے فیصلوں کے برعکس ہے لیکن وہ اسے درست سمجھتے ہیں۔
صدر زرداری حال ہی ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ سوئس حکام کو خط نہ لکھا جائے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ صدر کو کہیں جا کر استثنیٰ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کے بقول آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی خود بخود یہ استثنیٰ حاصل ہو جاتا ہے۔
اعتزاز احسن نے اس تاثر کو رد کیا کہ ان کی جماعت کی قیادت نے انھیں عدلیہ اور حکومت کے درمیان مصالحت کے لیے کوئی ذمہ داری سونپی ہے۔
سپریم کورٹ نے ’این آر او‘ کے خلاف دسمبر 2009ء میں اپنے ایک فیصلے میں اس متنازع قانون کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے منسوخ کرکے اس سے مستفید ہونےو الے صدر زرداری سمیت آٹھ ہزار افراد کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔
گزشتہ ہفتے ’این آر او‘ سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کرنے والے عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے حکومت کی طرف عدلیہ کے فیصلے پر پوری طرح عمل درآمد نا ہونے پر یہ معاملہ اس درخواست کے ساتھ چیف جسٹس کو بھجوا دیا تھا کہ اس کیس کی سماعت کے لیے ایک لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔
جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں چیف جسٹس نے ایک لارجر بینچ قائم کردیا ہے جو 16 جنوری کو اس معاملے کی سماعت کررہا ہے۔
حکومت یہ اعلان کرچکی ہے کہ وہ اٹارنی جنرل کی وساطت سے اپنا موقف پیش کرے گی۔