جمعے کو ’وائس آف امریکہ‘ کے حالاتِ حاضرہ کے پروگرام میں شرکت کرتے ہوئے، پاکستانی سیاست کے عنوان پررائے زنی کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے متضاد آرا کا اظہارِ خیال کیا۔
ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا تھا کہ حکومتِ وقت عدلیہ کا احترام کرتی ہے، جب کہ سارے قومی اداروں پر واجب ہے کہ وہ ایک دوسرے کا احترام کریں، جب کہ ڈاکٹر نادر بخت نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کو پروان چڑھانے کے لیے ضرورت اِس بات کی ہے کہ حکومت عدلیہ کے احکامات پر عمل درآمد کرے۔
تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف احمد، جن کا تعلق اردو یونیورسٹی کراچی کے شعبہٴ صحافت سے ہے، کے خیال میں قومی مصالحتی آرڈیننس ، میمو کیس اور سوئز مقدمات کے معاملات سینیٹ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے سامنے لائے گئے، جسے سینیٹ کے انتخابات کے بعد ایوان بالا میں عددی برتری حاصل ہو جائے گی۔
ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ اگرعدالت وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیتی ہے تو پارٹی اپنا دوسرا وزیر اعظم لے کر آئے گی، جو سینیٹ کے انتخابات کرائے گا۔ اُن کے بقول، ایسے انتہائی عدالتی اقدام کی صورت میں بھی ملک میں کوئی بڑا بحران پیدا نہیں ہوگا۔
تاہم، اُنھوں نے عاصمہ جہانگیر اور بیرسٹر اعتزاز احسن کا حوالہ دیا جو، اُن کے بقول، عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے بڑےنام ہیں، اور یہ کہ، اُن دونوں کی رائے یہ ہے کہ عدلیہ کے فیصلے ہمیشہ سول حکمرانوں کے لیے ہوتے ہیں، فوجی حکمرانوں کے لیے نہیں۔
تجزیہ کار ڈاکٹر عادل بخت، جو سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ سیا سیات کے سربراہ ہیں، کا کہنا تھا کہ قانون کی حکمرانی ہی جمہوریت کی حقیقی روح ہے۔ اُن کے بقول، زیادہ بہتر ہوتا کہ حکومت ِ وقت عدلیہ کے آگے اپنا سر جھکاتی۔
بتیا جاتا ہے کہ آئین کی رو سے، وزیر اعظم کے نااہل قرار دیے جانے کی صورت میں صدرِ پاکستان کواُنھیں معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ جب اُن سے اِس متعلق سوال کیا گیا تو عادل بخت کا کہنا تھا وہ کسی ایسے اقدام کو’ بہت زیادہ پسندیدگی کی نگاہ سے‘ نہیں دیکھتے۔ ’اگر ایسا ہوا، تو ہم کونسا سیاسی کلچر پروان چڑھا رہے ہوں گے؟ ایک نئی جوڈیشری بنی ہے۔ یہ تو اُس کا نیا’ اوریجن‘ ہے۔ یہ ایک ایسی قوم پروان چڑھنے جا رہی ہے جو جمہوریت میں یقین رکھتی ہے، عدل و انصاف پر اعتماد کرتی ہوگی، عدلیہ کی برتری پر یقین رکھتی ہوگی، جہاں طاقتور کے لیے بھی وہی قانون ہو جو کمزور کے لیے ہو‘۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: