امریکی ریاست کنیٹی کٹ کی پہلی پاکستانی نژاد مسلم قانون ساز مریم خان نے مطالبہ کیا ہے کہ نماز عید کے بعد ان پر دست درازی کرنے والے شخص کے خلاف جاری تفتیش میں نفرت انگیز جرائم کا الزام بھی شامل کیا جائے۔
مریم خان پر گزشتہ ماہ ہارٹ فورڈ میں عید الاضحی کی نماز میں شرکت کے بعدیہ دست درازی اس وقت کی گئی جب وہ اپنے خاندان کے ہمراہ اس مقام پر باہر موجود تھیں۔
حملے کے بعد پولیس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 30 سالہ مشتبہ شخص آندرے ڈیسمنڈ کو بدعنوانی، امن کی خلاف ورزی اور پولیس کے کام میں مداخلت کے الزامات کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق عدالت میں پراسیکیوٹر نے کچھ روز قبل آندرے ڈیسمنڈ کی چارج شیٹ میں ان کے خلاف سنگین الزامات شامل کیے جن میں جنسی زیادتی کی کوشش بھی شامل ہے لیکن نفرت انگیز جرائم کے الزامات اس میں درج نہیں کیے گئے ہیں, جس کا قانون ساز کے حامی مطالبہ کر رہے ہیں۔
حملے میں ابتدائی رپورٹس کے مطابق، مریم خان زخمی ہو گئی تھیں اور ان کے دائیں بازو اور کندھے پر زخم آئے تھے۔ بعدازاں، رپورٹس نے ظاہر کیا کہ انہیں سر پر چوٹ بھی آئی۔
"آپ کو یہ جاننے کے لیے چھان بین کی ضرورت ہے کہ کیا وہ شخص مسلمانوں کے خلاف تعصب رکھتا تھا ؟" مریم خان نے، جو کہ ڈیمو کریٹک جماعت سے تعلق رکھتی ہیں، امریکی چینل این بی سی نیوز کو بتایا۔
مریم خان نے کہا کہ تفتیش میں نفرت انگیز جرم کے الزام کا شامل نہ ہونا "میرے لئے بہت پریشانی کا باعث تھا۔"
حملہ آور ڈیسمنڈ پر الزام ہے کہ اس نے مریم خان اور ان کی بیٹیوں پر جنسی حملہ کیا۔
پولیس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ملزم نے پہلے خاتون پر نازیبا فقرے کسے اور پھر زبردستی ان کا بوسہ لینے کی کوشش کی۔
مریم خان اپنے خاندان کے ہمراہ تصویریں بنوا رہی تھیں جب ڈیسمنڈ نے ان پر ناشائستہ جملے کسے۔حملہ آور نے ان کے گلے میں بازو ڈالا۔جب مریم خان نے دور ہونے کی کوشش کی تو ڈیسمنڈ نے ان کے چہرے پر تھپڑ مارا اور ان کی گردن کو چھوڑ دیا، جس سے وہ زمین پر گر گئیں۔
مریم نے این بی سی کو انٹرویو میں بتایا کہ ان کی کوششوں کے باوجود ڈیسمنڈ نے دست درازی سے پیچھے نہیں ہٹ رہا تھا۔
حملہ آور کے خلاف جب ہارٹ فورڈ سپیریئر کورٹ میں قانونی کارروائی کا آغاز ہوا اس وقت وہاں مقامی اماموں سمیت ریاست کی نمائندہ مریم خان کے حامی بھی جمع تھے۔
حملہ آور پر الزامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے امریکن اسلامک ریلیشنز کی کونسل کے کنیٹی کٹ چیپٹر کے چیئرمین فرحان میمن نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’’یہ بات میرے لیے اب بھی ایک معمہ بنی ہوئی ہے کہ ریاست اس قسم کے واقعات میں تعصب پر مبنی جرائم کا الزام کیوں نہیں عائد کر رہی۔‘‘
انہوں نے کہا،"اس پر تعصب کا الزام ایک جرم کے طور پر عائد کرنے سے باقی آبادی کو یہ پیغام جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہونے جا رہی ہے جس کے ساتھ سنجیدگی سے نمٹا جائے گا۔"
اس خبر میں شامل زیادہ تر مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔