رسائی کے لنکس

ایلبکرکی میں مسلمانوں کے سلسلہ وار قتل کیس میں مشتبہ شخص گرفتار، پولیس


میڈینا کا کہنا ہے کہ پولیس اس بارے میں مزید تفصیلات جلد ہی فراہم کرے گی۔
میڈینا کا کہنا ہے کہ پولیس اس بارے میں مزید تفصیلات جلد ہی فراہم کرے گی۔

امریکی شہر ایلبکرکی کے پولیس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ نے منگل کے روز ایک ٹوئٹ میں کہا کہ گزشتہ برس نومبر سے شروع ہونے والے مسلمانوں کے قتل کی وارداتوں کے سلسلے میں ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔

پولیس چیف ہیرلڈ میڈینا نے ٹوئٹر پر لکھا کہ مشتبہ شخص وہی مشکوک گاڑی چلا رہا تھا جس کے بارے میں باور کیا جاتا ہےکہ اس کا تعلق ایلبکرکی میں ایک مسلمان شخص کے قتل سے ہے۔

میڈینا کا کہنا ہے کہ پولیس اس بارے میں مزید تفصیلات جلد ہی فراہم کرے گی۔

نیو میکسیکو میں چار مسلمانوں کی سلسلہ وار ہلاکتیں، پولیس متحرک، صدر بائیڈن کی مذمت

قبل ازیں ریاست نیومیکسیکو کے شہر ایلبکرکی میں چار مسلمانوں کی سلسلہ وار ہلاکت کے بعد کمیونٹی میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور مقامی کمیونٹی راہنماوں نے وائس آٖف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ یہ ہلاکتیں ’ افغان مہاجرین اور ان کی مدد کرنے والوں کے خلاف ہیٹ کرائم‘ یعنی نفرت پر مبنی مجرمانہ کارروائی ہو سکتی ہے۔دوسری جانب امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے ان ہلاکتوں ہر غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ مسلم کمیونٹی کے ساتھ کھڑی ہے۔

ریاست نیومیکسیکو کے شہر ایلبکرکی میں واقع نیو میکسیکو اسلامک سینٹر کے پبلک افئیرز کے ڈائریکٹر طاہر گابا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ قتل کی یہ وارداتیں ایک گروپ کے خلاف نفرت پر مبنی ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ ہو سکتی ہیں۔

’’ ہم سمجھتے ہیں کہ ان سب واقعات کا تعلق افغان ریفیوجی کمیونٹی کے ساتھ ہو سکتا ہے‘‘۔

انہوں نے بتایا کہ ایلبکرکی کی یہ تاریخ رہی ہے کہ نائن الیون کے بعد بھی جب بہت سے افغان مہاجرین امریکہ آئے تو ان میں سے بہت سے یہاں البیکرکی آ کر بسے تھے۔

واضح رہے کہ ایلبکرکی حکام کا کہنا ہے کہ جب تک وہ قتل کی وارداتوں کے سلسلے میں کسی مشکوک شخص کو پکڑ کر مقصد نہیں جان لیتے، تب تک یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ جرائم نفرت پر مبنی ہیں یا نہیں۔

قتل کے واقعات کے پیچھے فرقہ واریت کی قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ نیو میکسیکو اسلامک سینٹر ریاست کی سب سے بڑی مسجد ہے جہاں ہر رنگ، نسل اور فرقے سے لوگ عبادت کرنے آتے ہیں۔ بقول ان کے ’’افضل حسین سنی تھے، اور یہاں مستقل آتے تھے۔ یہاں لوگوں کی اکثریت سنی ہے لیکن کچھ شیعہ بھی یہاں آتے ہیں۔‘‘

طاہر گابا نے بتایا کہ ایلبکرکی میں گزشتہ برس نومبر میں پہلے قتل کے موقع پر ان سمیت سب نے اسے معمول کے پرتشدد واقعات کا سلسلہ سمجھا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ 26 جولائی کو آفتاب حسین کے قتل پر بھی ان لوگوں کا کسی اور جانب خیال نہیں گیا۔ لیکن جب چار روز بعد محمد افضل کا قتل ہوا، جو بقول ان کے کمیونٹی میں بہت معروف اور مقامی سیاست میں ابھرتے ہوئے ستارے کے طور پر دیکھے جاتے تھے، تو انہوں نے اور مسجد کے صدر احمد اسد نے حکام سے رابطہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ جمعے کے روز دونوں جنازوں کے بعد انہیں لگا کہ اب شاید دوبارہ ایسا واقعہ نہ ہو۔

طاہر گابا کہتے ہیں، ’’ہمیں بالکل پتہ نہیں تھا کہ ہفتے کے روز سے سب کچھ تبدیل ہو جائے گا۔ میرے بھائی نے فون کر کے مجھے جگایا اور بتایا کہ جمعے کی رات کو کمیونٹی کے ایک اور رکن کو قتل کر دیا گیا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی میرے منہ سے نکلا ’’نہیں‘‘۔

انہوں نے بتایا کہ ہم لوگ بہت زیادہ شاک میں ہیں اور جمعے کے قتل کے بعد سے ہم بہت زیادہ پریشان ہیں۔ ہم لوگوں کو کہہ رہے ہیں کہ آپ ریاست میں جہاں کہیں بھی موجود ہیں، اپنے ارد گرد پر نظر رکھیں۔ گاڑی چلاتے ہوئے بیک مرر پر نظر رکھیں کہ کوئی پیچھا تو نہیں کر رہا۔ اور اگر کوئی شبہ ہو یا کسی کی شکل یاد ہو تو حکام کو بتائیں۔‘‘

طاہرگابا نے کہا کہ یہاں تک لوگوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ ’’اگر آپ سگنل پر رکیں اور دائیں بائیں لوگ مشکوک لگیں یا ان کے پاس آپ کو ہتھیار نظر آئیں تو موقع دیکھ کر فرار ہو جائیں اور حکام کو فوراً بتائیں۔‘‘

طاہرگابا نے بتایا کہ مقامی حکام اور علاقہ مکین ان کا حوصلہ بڑھانے اور دلجوئی کے اقدامات کر رہے ہیں۔ بقول ان کے ’’ہم سینیٹر مارٹن ہائنریخ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ گورنر، مئیر یہ سب بہت کوشش کر رہے ہیں اور شہر ی انتظامیہ نے ہمیں آفر کی ہے کہ اگر مسلمان کمیونٹی کے افراد کہیں گھر سے نکلنے کے بارے میں خوف زدہ ہیں تو ہمیں بتائیں، ہم تازہ حلال کھانا ان کے دروازے تک پہنچائیں گے۔‘‘

نیو میکسیکو میں پولیس اور وفاقی ایجنسیاں یکے بعد دیگرے ہونے والی ان ہلاکتوں کی تحقیقات کر رہی تھیں، جن میں سے تازہ ترین واقعہ جمعہ کی شام کو پیش آیا۔

قبل ازیں امریکی صدر جو بائیڈن نے اتوار کے روز نیو میکسیکو کے ایلبکرکی میں ایک چوتھے مسلمان شخص کی ہلاکت کے بعد مسلم کمیونٹی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، جسے حکام ٹارگٹ حملوں کے ایک سلسلے کے طو ر پر بیان کر رہے ہیں۔

بائیڈن نے چوتھی موت کی خبر کے بعد ٹویٹر پر ایک پوسٹ میں کہا کہ وہ ان ہلاکتوں سے غم و غصے میں ہیں۔

انہوں نےلکھا کہ "میری دعائیں متاثرین کے خاندانوں کے ساتھ ہیں، اور میری انتظامیہ مسلم کمیونٹی کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے۔ ان نفرت انگیز حملوں کی امریکہ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔اس کی مکمل تحقیقات کی جارہی ہیں۔"

پولیس نے کہا ہے کہ ریاست کے سب سے بڑے شہر میں گزشتہ نو ماہ میں ہلاک کئے گئے دیگر تین مسلمان مردوں کوبظاہر ان کے مذہب اور نسل کی وجہ سےہدف بنایا گیا تھا۔

قتل ہونے والے افراد میں سے دو اسی مسجد کے ارکان تھے، جنہیں جولائی کے آخر اور اگست کے اوائل میں ایلبکرکی میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس بات کا "قوی امکان" ہے کہ ان کی موت کا تعلق نومبر میں ایک افغان تارک وطن کے قتل سے ہو ۔

نیو میکسیکو اسٹیٹ پولیس ، ایف بی آئی اور یو ایس مارشل سروس تحقیقات میں مدد کرنے والی ایجنسیوں میں شامل ہیں۔

اسی دوران تحقیقات کرنے والے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسی کار کی تلاش میں ہیں جس کے بارے میں خیال ہے کہ اس کا تعلق ان وارداتوں سے ہو سکتا ہے۔

پولیس نے کہا ہے کہ چاروں افراد کے قتل میں ایک ہی گاڑی کے استعمال ہونے کا شبہ ہے ۔ اور یہ گاڑی گہرے سرمئی (گرے) رنگ کی جیٹا معلوم ہوتی ہے۔ حکام نے اس امید پرگاڑی کی تصاویر جاری کی ہیں کہ عوام گاڑی کی نشاندہی میں مدد کر سکتے ہیں۔

تفتیش کاروں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ تصاویر کہاں لی گئی ہیں یا انہیں قتل کے واقعات میں اس کار کے استعمال ہونے کا شبہ کیوں ہوا۔

ایلبکرکی کے میئر ٹم کیلر نے اتوار کو کہا کہ "ہمارے پاس بہت، بہت مضبوط ربط ہے۔"ہم اس کار میں دلچسپی رکھتے ہیں … ہمیں اس گاڑی کو تلاش کرنا ہے ۔"

پولیس نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ تازہ ترین واقعے میں مقتول کا تعلق جنوبی ایشیا سے تھا اور اس کی عمر 20 سال کےقریب تھی۔مقتول شخص کو، جس کی تفتیش کاروں نے اس وقت تک شناخت نہیں کی تھی ، پولیس کو فائرنگ کی اطلاع ملنے کے بعد مردہ پایا گیا۔ حکام نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ آیا یہ قتل دیگر ہلاکتوں کی طرح کیا گیا تھا۔

پولیس نے گزشتہ ہفتے تصدیق کی تھی کہ مقامی جاسوس اور نفاذ قانون کے وفاقی عہدے دار ہلاکتوں کے واقعات کے درمیان ممکنہ تعلق کی تلاش میں ہیں۔

مقتول افراد میں سے دو — 27 سالہ محمد افضل حسین اور 41 سالہ آفتاب حسین —کو گزشتہ ہفتے قتل کیا گیا تھا۔ دونوں کا تعلق پاکستان سے تھا اوروہ ایک ہی مسجد کے ارکان تھے۔ تیسرا کیس نومبر میں جنوبی ایشیائی نسل کے ایک مسلمان شخص 62 سالہ محمد احمدی کے قتل سے متعلق ہے۔

حکام کاکہنا ہے کہ وہ جب تک کہ کسی مشتبہ شخص اور محرک کی شناخت نہ کر لیں ، س بات کا تعین نہیں کر سکتے کہ آیا فائرنگ کے واقعات کا تعلق نفرت پر مبنی جرائم سے ہے ۔

گورنر مشیل لوجان گریشم نے اتوار کو کہا تھا ’’ہم اس شخص یا ان افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے"

ہفتے کے روز دیر گئے ٹویٹر پر ایک پوسٹ میں انہوں نے کہا تھا، " ایلبکرکی کے مسلمان باشندوں کی ٹارگٹ کلنگ شدید غصے کا باعث اور مکمل طور پر ناقابل برداشت ہے۔"

اس سے قبل پولیس نے کہا تھا کہ ستائیس سالہ محمد افضال کو جو نو ایسپانولا شہر میں پلاننگ ڈائریکٹر تھے ، اور پاکستان سے امریکہ آئے تھے ، پیر کے روز البیکرکی میں ان کے اپارٹمنٹ کمپلیکس کے سامنے گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا، جب کہ اکتالیس سالہ آفتاب حسین 26 جولائی کو ایلبکرکی کے انٹر نیشنل ڈسٹرکٹ کے قریب مردہ حالت میں پائے گئے، ان کی موت گولی لگنے سے ہوئی تھی ۔پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ہلاکتیں امکانی طور پر گزشتہ سال سات نومبر کو ایک حلال سپر مارکیٹ اور کیفے کے ایک پارکنگ لاٹ میں 62 سالہ محمد احمدی کو گولی لگنے کے واقعے سے منسلک ہیں ۔

(خبر کے مواد کا بعض حصہ رائیٹرز سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG