پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سماجی رابطے کی ایک ویب سائیٹ پر مبینہ طور پرتوہین آمیز تصویر کو پسند کرنے پر ایک مسیحی نوجوان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
18 سالہ نبیل چوہان پر الزام ہے کہ اس نے مذہبی طور پر توہین آمیز تصویر کو سماجی رابطے کی سائیٹ پر پسند کیا اور اس کا دوسروں کے ساتھ تبادلہ بھی کیا۔
بتایا جاتا ہے کہ ملزم نے اس تصویر کو اپنے موبائل فون پر بھی محفوظ کیا تھا۔
پولیس کے مطابق نبیل کے ایک مسلمان دوست نے اس کے فیس بک اکاونٹ پر مبینہ طور توہین آمیز تصویر کو دیکھنے کے بعد اس کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی۔
پولیس نے مقدمہ درج کر کے نبیل کو گرفتار کر نے کے بعد اس معاملے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک حساس معاملہ رہا ہے اور اسی وجہ سے ایسے واقعات میں ملوث افراد کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات مشتعل لوگوں نے ان مقدمات میں ملوث ملزموں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جبکہ کئی ایک کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔
ماضی میں ایسے واقعات بھی سامنے آچکے ہیں کہ بعض اوقات لوگوں نے ذاتی رنجش اور مخاصمت کی بنا پر توہین مذہب کے قانون کی آڑ میں دوسروں پر جھوٹے الزامات عائد کیے۔
انسانی حقوق کے غیر سرکاری تنظیم "ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان" کی سربراہ زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ توہین مذہب کے معاملے کی حساس نوعیت کے پیش نظر ایسے مقدمات میں ملوث افراد کی جان و مال کے تحفظ کو یقنی بنانا ضروری ہے۔
" پاکستان میں توہین مذہب میں (مجرموں) کے لیے موت کی سزا ہے مگر قانون کے تحت ابھی تک کسی کو موت کی سزا نہیں دی گئی ہے مگر غیر قانونی طور پر لوگوں نے اشتعال میں آکر اور جیلوں میں لوگوں کو قتل کیا ہے اور ایسے لوگوں کی تعداد ساٹھ اکسٹھ ہے۔"
انہوں نے کہا کہ توہین مذہب کے الزام کی حساس نوعیت کے پیش نظر ایسے مقدمات کی تفشیش صاف و شفاف ہونی چاہیے۔
" یہ بہت ضروری ہے کہ ایسے الزامات کی صحیح طور پر تفتیش کی جائے اور جب تک تفتیش مکمل نہیں ہو جاتی اور اس پر فرد جرم عائد نہیں کی جاتی اسے ہر طرح کا تحفظ دیا جائے اور فوراً یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے جس پر الزام عائد کیا گیا ہے وہ مجرم ہے۔ جب تک کسی پر جرم ثابت نہیں ہو جاتا اس وقت تک وہ بے گناہ ہے"۔
انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے اس قانون کے مبینہ طور پرغلط استعمال کو روکنے کے لیےحکومت پاکستان سے مناسب اقدامات کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔
پاکستان میں مذہبی حلقوں کی اکثریت اس قانون میں کسی بھی طرح کی ترمیم کے خلاف ہے جبکہ حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے عہدیداروں کو واقعات کی پوری طرح سے چھان بین کرنے کا کہا گیا ہے۔
پاکستان میں متعد افراد توہین افراد جن میں مسلمان اور دیگر مذہبی برداریوں کے افراد کو توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمات کا سامنا ہے اور ان میں سے کئی ایک ذیلی عدالتیں موت کی سزا سنا چکی ہے لیکن تاحال کسی کی بھی سزا پر اس لیے عمل درآمد نہیں ہوا کیونکہ ان سزاؤں کے خلاف ان کی اپیلیں ملک کے اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔