رسائی کے لنکس

پاکستان: شام کے لیے جنگجوں کی بھرتی، ’انصار الحسین‘ پر پابندی


دمشق میں واقع ایک مسجد۔ فائل فوٹو
دمشق میں واقع ایک مسجد۔ فائل فوٹو

رپورٹس کے مطابق بھرتی کیے جانے والے پاکستانیوں کو شام میں’ زینب بریگیڈ ‘میں بھیج دیا جاتا ہے جو پاکستان کے اندر اور باہر سے بھرتی کیے جانے والے نوجوانوں اور ایران میں زیر تعلیم پاکستانی طالب علموں پر مشتمل ہے۔

مدیحہ انور، نور زاہد

پاکستان میں انسداد دهشت گردی کے وفاقی حکام نے ایک مقامی خیراتی گروپ پر پابندی لگا دی ہے جس کے متعلق شبہ ہے کہ وہ ایرانی حمایت یافتہ جنگجوؤں کے ساتھ مل کر لڑنے والے رنگروٹ بھرتی کر رہا تھا جو شام کی خانہ جنگی میں سرکاری فوجوں کی مدد کررہے ہیں۔

پچھلے ہفتے پاکستانی میڈیا کی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ ٴانصار الحسین ‘پر پابندی 30 دسمبر سے لگائی گئی ہے۔

انسداد دهشت گردی کے قومی ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق اس گروپ کے لیے اب پاکستان میں کام کرنا غیر قانونی ہو گیا ہے۔

سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئر مین اور حکمران جماعت مسلم لیگ کے راہنما عبدالقیوم نے گروپ پر پابندی عائد ہونے کے بعد وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت اس بارے میں مزید چھان بین کر رہی ہے کہ آیا کوئی اور گروپ تو شام کی جنگ کے لیے پاکستان سے لوگوں کو بھرتی تو نہیں کر رہا۔

انصار الحسین نامی تنظیم، جس کے متعلق پاکستان میں کم ہی لوگ جانتے ہیں، خود کو انسانی ہمددردی کے لیے کام کرنے والی ایک شیعہ تنظیم کے طور پر پیش کر تی تھی اور خاموشی کے ساتھ پاکستان کی کئی شمال مغربی علاقوں سے نوجوان بھرتی کرکے ایران بھیج رہی تھی، جہاں سے انہیں، میڈیا اور انٹیلی جینس رپورٹس کے مطابق ہتھیاروں کی تربیت دینے کے بعد شام بھیج دیا جاتا تھا۔

عبدالقادر نے، جو فوج میں لیفٹیننٹ کے طور پر خدمات سرا نجام دے چکے ہیں، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہمارے پاس نگرانی اور دهشت گردوں کا کھوج لگانے کا ایک مؤثر نظام موجود ہے جس کی وجہ سے ہم انصارالحسین کی سرگرمیوں کا پتا چلانے میں کامیاب ہوئے۔

پاکستانی میڈیا کا کہنا ہے کہ اطلاعات کے مطابق پچھلے سال ایک ہزار سے زیادہ پاکستانی بھرتی کیے گئے جو شام میں ایران کے پاسداران انقلاب کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق بھرتی کیے جانے والے پاکستانیوں کو شام میں ’ زینب بریگیڈ‘ میں بھیج دیا جاتا ہے جو پاکستان کے اندر اور باہر سے بھرتی کیے جانے والے نوجوانوں اور ایران میں زیر تعلیم پاکستانی طالب علموں پر مشتمل ہے۔

امریکہ کی یونیورسٹی آف میری لینڈ میں شام کی جنگ میں ایران کے کردار پر تحقیق کرنے والے ایک اسکالر فلپ سمتھ کا کہنا ہے کہ ایران میں بہت سے پاکستانی شیعہ موجود ہیں ۔ اکثر أوقات وہ وہاں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں۔

تہران کا کہنا ہے کہ اس کی فورسز دمشق میں واقع’ مزار زینب ‘کی حفاظت کے لیے موجود ہیں جو شیعوں کے لیے ایک مقدس زیارت گاہ ہے۔

لیکن سن 2011 سے ایران، باغیوں کے ساتھ لڑائی میں شام کی موجودہ حکومت کا ایک بڑا مددگار رہا ہے ۔

شام میں جنگ کی نگرانی کرنے والے گروپس کا کہنا ہے کہ اس ملک میں پاکستانی جنگجو، ایرانی عسکریت پسندوں اور ایران کی پراکسی تنظیم لبنانی حزب اللہ کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔

مشرقی دمشق میں میڈیا کے لیے کام کرنے والے احمد خدور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستانی عسکریت پسند بنیادی طور پر دمشق اور اس کے گرد ونواح کے علاقوں میں لڑتے ہیں۔

اسکالر سمتھ کا کہنا ہے کہ رنگروٹ کے طور پر بھرتی ہونے والے پاکستانی اکثر أوقات سوشل میڈیا سے متاثر ہوتے ہیں، جس میں فیس بک اور ٹوئیٹر شامل ہیں۔ وہاں انہیں ایسے فون نمبر دیے جاتے ہیں جہاں کال کرنے والے اپنی دلچسپی ظاہر کرتے ہیں اور اگر وہ بھرتی کے قابل ہوتے ہیں تو انہیں بھرتی کر لیا جاتا ہے۔

تحزیہ کار کہتے ہیں پاکستانی رنگروٹوں سے مالی فوائد اور ایران کی شہریت دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔

سپاہ پاسداران انقلاب ایران نے گذشتہ موسم گرما میں شام میں مارے جانے والے پاکستانی جنگجوؤں کے اعزاز میں تہران میں ایک ریلی کا اہتمام کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG