رسائی کے لنکس

پاکستانی صحافی بھی دہشت گردی کا شکار


مصری خان اورکزئی
مصری خان اورکزئی

پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواہ میں گزشتہ روز ایک اور صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

پاکستانی وفاق کے زیرِ انتظام اور طالبان اور القائدہ کا گڑھ سمجھے جانے والے قبائلی علاقوں سے ملحقہ ضلع ہنگو کی مقامی صحافتی یونین کے صدر مصری خان اورکزئی کو منگل کے روز علی الصبح نامعلوم مسلح افراد نے ہنگو پریس کلب کی عمارت کے سامنے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔

ہنگو پولیس کے ترجمان کے مطابق نامعلوم نقاب پوش افراد نے مصری خان کو اس وقت فائرنگ کا نشانہ بنایا جب وہ علی الصبح اپنے معمول کے مطابق پریس کلب کے دروازے پر اخبارات کے بنڈل وصول کرنے کیلیے کھڑے تھے ۔ انہیں زخمی حالت میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہوسکے ۔

پچاس سالہ مصری خان گزشتہ تیس برس سے صحافت سے وابستہ تھے اور ہنگو پریس کلب کے صدر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اپنے قتل کے وقت وہ ایک بڑے ملکی روزنامے "ایکسپریس" کے علاوہ کئی دیگر مقامی اور ملکی روزناموں اور جریدوں کے نمائندے کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے۔

مقتول کے ایک ساتھی صحافی نے وائس آف امریکہ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نامعلوم شرپسندوں کی جانب سے اس سے قبل بھی مصر ی خان کے دفتر کو تین بار نذرِ آتش کیا جاچکا تھا جبکہ انہیں گزشتہ دو ماہ سے قتل کی دھمکیاں بھی موصول ہورہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہنگو کے صحافیوں میں اپنے دیرینہ ساتھی کے قتل کے بعد سے شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور وہ اسی وجہ سے قتل پہ آن دی ریکارڈ کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔

ہنگو افغانستان کی سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقہ جات کے ساتھ واقع ہونے کے باعث گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کی کاروائیوں کا نشانہ بن رہا ہے۔ جبکہ قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج کی جانب سے مقامی اور غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف مختلف اوقات میں کیے جانے والے آپریشنز کے دوران بھی دہشت گردوں نے ہنگو شہر اور اسکے مضافات کو اپنی انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنائے رکھا ۔

مقتول صحافی کے صاحبزادے عثمان غنی کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کا علاقے میں کسی سے جھگڑا نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے والد کے قتل کی وجہ انکی رپورٹنگ ہے۔

پاکستان میں رواں ماہ کے دوران صحافیوں کےخلاف تشددکا یہ تیسرا بڑا واقعہ ہے۔ اس سے قبل رواں ماہ کے آغاز میں کوئٹہ کے ایک مذہبی جلوس میں ہونے والے خودکش دھماکے میں دو صحافیوں سمیت درجنوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ حملے میں جلوس کی کوریج کرنے والے آٹھ صحافی اور کیمرہ مین زخمی بھی ہوئے تھے۔

جبکہ رواں ماہ کے پہلے ہی ہفتے میں اسلام آباد کے ایک انگریزی روزنامے "دی نیوز" کے رپورٹر عمر چیمہ کو پولیس کی وردیوں میں ملبوس نامعلوم افراد نے اغوا کرکے کئی گھنٹوں تک جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور ان کے سر کے بال اور مونچھیں مونڈ دی تھیں۔ مذکورہ واقعے کا صدر اور وزیرِ اعظم کی جانب سے نوٹس لیے جانے اور کئی تحقیقاتی ٹیمیں بنائے جانے کے باوجود واقعے میں ملوث کسی فرد کو تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا اور نہ ہی تحقیقاتی اداروں کی رپورٹس منظرِ عام پر لائی گئی ہیں۔

گوکہ صحافتی تنظیموں کی جانب سے حکومت کو مصری خان کے قاتلوں کی گرفتاری کیلیے تین دن کی ڈیڈلائن دی گئی ہے، تاہم مقامی صحافیوں کی اکثریت کو یقین ہے کہ ان کے اس ساتھی کے قاتل بھی نہ کبھی گرفتار ہو پائیں گے اور نہ ہی کبھی ان کے قتل کے محرکات سے پردہ اٹھ پائے گا۔

صوبے کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم خیبر یونین آف جرنلسٹ کے صدر سید بخار شاہ باچا کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھی صحافیوں کو اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران صوبے کے مختلف علاقوں میں لڑائی میں مصروف دونوں فریقوں (انتہا پسندوں اور سرکاری سیکیورٹی اہلکاروں) کی طرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں فریق صحافیوں پر مخالف کی حمایت کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔

صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم "کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ" کی جانب سے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان صحافیوں کو درپیش خطرات کے لحاظ سے دنیا کے چند خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے جہاں گزشتہ اٹھارہ برسوں کے دوران 42 صحافی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

تاہم پاکستانی صحافیوں کی وفاقی تنظیم "پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ" کے مرتب کردہ اعداد و شمار کہیں زیادہ خوفناک ہیں۔ پی ایف یو جے کے مطابق سال 10-2009 پاکستان کے صحافیوں کیلیے بد ترین سال رہا جس میں کل 25 صحافی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ مذکورہ اعدادو شمار کی رو سے پاکستان صحافیوں کیلیے دنیا کے پانچ خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک ہے جہاں ہر سال اوسطاً چھ صحافی قتل کردیے جاتے ہیں۔

ماضی میں پی ایف یو جے کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان سے ملک میں صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ اور قاتلوں کی عدم گرفتاری پہ سوموٹو نوٹس لینے کی اپیل بھی کی گئی تھی تاہم اس پر کوئی کاروائی عمل میں نہیں آئی ۔

کئی عالمی تنظیموں نے بھی مصری خان کے قتل پہ شدید احتجاج کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان سے صورتحال کا فوری نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔ سی پی جے کے ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر باب ڈیٹز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہلاک ہونے والے ایسے صحافیوں کی فہرست بہت طویل ہے جن کے قتل کے محرکات سے اب تک پردہ نہیں اٹھایا جاسکا اور نہ ہی ان کے قاتل ہی گرفتار کیے گئے۔

مصری خان کے قتل پہ اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے باب ڈیٹز کا کہنا تھا کہ "یہ ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوگا اگر مصری خان کا قتل بھی ماضی میں ہلاک ہونے والے ایسے ہی صحافیوں کی گنتی میں محض ایک اضافہ ثابت ہو۔مقتول صحافیوں کی یہ تعداد حالات کی سنگینی ظاہر کرتے ہوئے حکومت سے فوراً کاروائی کا مطالبہ کرتی ہے"۔

مقتول پاکستانی صحافیوں کے کوائف کے مطابق ہلاک شدگان میں سے بیشتر دہشت گردی کے خلاف پڑوسی ملک افغانستان میں جاری جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے پاکستانی قبائلی علاقوں اور ان سے ملحقہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں نشانہ بنائے گئے۔ جبکہ صحافیوں کیلیےدوسرا خطرناک ترین علاقہ صوبہ بلوچستان ہے جہاں جاری علیحدگی کی تحریکوں اور باغیوں کی سرکوبی کیلیے جاری سرکاری فورسز کی کاروائیوں کے باعث بھی مقامی صحافی شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔

غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مذکورہ علاقوں میں پیشہ وارانہ ذمہ داریا ں انجام دینے والے 1000 سے زائد صحافیوں کی زندگیاں دائو پر لگی ہوئی ہیں جن کے پاس ان علاقوں میں جاری مسلح لڑائیوں اور تصادموں کی رپورٹنگ کرنے کی مناسب تربیت ہے اور نہ ہی انہیں ان کے اداروں کی جانب سے ان خدمات کا مناسب معاوضہ ہی دیا جاتا ہے جو وہ اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کے انجام دیتے ہیں۔

لڑائی میں مصروف فریقین کی جانب سے علاقے میں موجود صحافیوں کو ہراساں کرنے کے کئی واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوتے رہے ہیں، جبکہ صحافتی تنظیموں کے ذمہ داران کے مطابق ایسے مزید کئی واقعات اور ملنے والی دھمکیاں مقامی صحافی جان کے خوف سے رپورٹ نہیں کرتے۔

XS
SM
MD
LG