پاکستان میں حزب مخالف اور حکومت کی اتحادی جماعتوں نے کہا کہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں کیے جانے والے آپریشن میں پاکستان کو شامل ہونے کی بجائے مسلمان ممالک میں اتحاد کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے تجویز دی ہے کہ کسی بھی فیصلے سے قبل پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلا کر اُس میں صورت حال پر غور کیا جائے۔
ملک کی ایک بڑی سیاسی و مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کوئی فیصلہ پاکستان کے مفاد مد نظر رکھ کر ہی کیا جانا چاہیئے۔
’’عراق میں بھی یہ ہی صورت حال تھی کہ پاکستان کو فوج بھیجنا چاہیئے یا نہیں لیکن پاکستان فوج نہیں بھیج سکا۔‘‘
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کسی بھی فیصلے سے قبل ملک میں تمام فریقوں سے مشاورت ضروری ہے۔
اُدھر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ اُن کی جماعت یمن میں حکومت کی طرف سے فوج بھیجنے کے ممکنہ اقدام کی سخت مخالفت کرے گی۔
قومی وطن پارٹی کے سربراہ اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے سابق وزیر اعلیٰ آفتاب شیرپاؤ کہتے ہیں کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے اور اُن کے بقول پاکستان کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ براہ راست فوجی مداخلت میں حصہ نا لے۔
وفاقی وزیر برائے اُمور داخلہ بلیغ الرحمٰن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کوئی بھی فیصلہ مشاورت اور غور کے بعد ہی کیا جائے۔
پاکستان میں عمومی رائے یہ ہی ہے کہ ایک ایسے وقت جب مسلح افواج اندرون ملک دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی میں مصروف ہیں اُنھیں کسی اور محاذ پر الجھانے سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔