اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف منگل کو امریکہ روانہ ہو گئے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف 26 ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔
مشیر برائے قومی سلامتی و اُمور خارجہ سرتاج عزیز کے علاوہ معاون خصوصی طارق فاطمی بھی وزیراعظم کے ہمراہ ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف اقوام متحدہ کے امن مشن سے متعلق ایک اجلاس میں بھی شرکت کریں گے جس میں امریکہ کے نائب صدر جوبائیڈن کے علاوہ کئی دیگر عالمی رہنما بھی شریک ہوں گے۔
وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف کی کئی عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی متوقع ہیں تاہم اس بارے میں سرکاری طور پر تفصیل نہیں بتائی گئی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پڑوسی ملک بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی بھی شرکت کر رہے ہیں لیکن تاحال پاکستان اور بھارت کی اعلیٰ قیادت کے درمیان ممکنہ ملاقات کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔
وزیراعظم ایک ایسے وقت بیرون ملک گئے ہیں جب ان کی حکومت کے خلاف ایک ماہ سے زائد عرصے سے پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک اسلام آباد میں دھرنا دیے ہوئے ہیں اور ان جماعتوں کی طرف سے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کے مطالبے کو لے کر ملک میں شدید سیاسی کشیدگی پائی جارہی ہے۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری کشیدگی کے تناظر میں وزیراعظم کا جنرل اسمبلی سے خطاب شاید زیادہ پراثر نہ ہو۔ لیکن مبصرین کی اکثریت اسے ملک اور خطے کو درپیش چیلنجز میں پاکستان کا موقف عالمی برادری کے سامنے پیش کرنے کا ایک اچھا اور اہم موقع قرار دے رہی ہے۔
سینیئر تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعظم عالمی برادری کو یہ بتا سکیں گے کہ مشکلات کے باجود ان کی حکومت چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے اور دنیا خصوصاً خطے میں امن و سلامتی میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہے۔
"اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو تقاریر ہوتی ہیں وہ کوئی معمول کی کارروائی نہیں ہوتیں۔ اس میں خصوصی طور پر وہ ممالک جو مشکلات کا شکار ہیں یا ترقی یافتہ ہیں، ماضی میں کسی مشکل میں رہ چکے ہیں اور آئندہ اپنا کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں ان کی بات کو سنا جاتا ہے۔ وزیراعظم اپنا موقف ہندوستان کے حوالے سے، جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے، امریکہ کے ساتھ افغانستان میں اتحاد اور وہاں استحکام کے حوالے سے جو بات کرتے ہیں دنیا کا میڈیا بھی انھیں سنے گا اور دنیا کے رہنما بھی انھیں نوٹ کریں گے۔"
ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کے فوری طور پر حل ہونے کے امکانات دکھائی نہیں دیتے جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ احتجاجی دھرنوں کی وجہ سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔
دوسری طرح حکومت مخالف جماعت تحریک انصاف کا موقف ہے کہ وہ اپنے احتجاج کو اب ملک گیر سطح تک بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔