پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورتِ حال نے ملک میں ایک بار پھر سے معاشی بے یقینی کو ہوا دی ہے اور رواں ہفتے کے پہلے دو دنوں میں روپے کی قدر اور اسٹاک ایکسچینج خاصی گراوٹ کا شکار رہی ہیں۔
منگل کو روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 224 روپے کی سطح عبور کر گئی جو کہ تاریخ کی بلند ترین سطح ہے جب کہ اسٹاک مارکیٹ میں دو دن میں 1600 پوائٹس کی کمی ہوئی۔
پیر کو تقریبًاً پانچ روپے اضافے کے بعد انٹر بینک میں ڈالر 215.19 پر بند ہوا تھا جس میں منگل کو سات روپے کے لگ بھگ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
اسی طرح اسٹاک مارکیٹ کاروباری ہفتے کے پہلے روز شدید مندی کا شکار رہی اور کاروبار کے اختتام پر انڈیکس 707.80 پوائنٹس کمی کے ساتھ 41367 پوائنٹس کی سطح پر بند ہوا جس کا رجحان منگل کو بھی جاری رہا اور یہ رجحان منگل کو بھی جاری رہا اور مارکیٹ 978 پوائنٹس تک گر گئی۔
معاشی تجزیہ نگار شہریار بٹ کہتے ہیں کہ سیاسی بے یقینی اور خراب معاشی پس منظر کی وجہ سے روپیہ مسلسل اپنی قدر کھو رہا ہے اور اسٹاک مارکیٹ بھی مندی کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورتِ حال پاکستان کے لیے پریشان کن ہے اور اگر حکومت نے سنجیدہ اقدامات نہ لیے تو یہ رجحان آئندہ دنوں میں بھی جاری رہے گا۔
اسی بے یقینی کی صورتِ حال میں بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستان کے آؤٹ لُک کو مستحکم سے منفی کر دیا ہے۔ فچ کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق پاکستان کے آؤٹ لُک کو بیرونی ادائیگیوں کے لیے فنانسنگ سے جُڑے رسک کہ وجہ سے مستحکم سے منفی کیا گیا ہے۔
فچ کے مطابق اس سلسلے میں سیاسی خطرات کو بھی نظر انداز نہیں کیاجا سکتا کیونکہ یہ پاکستان کے مالیاتی اور بیرونی ادائیگیوں کے شعبے کو متاثر کر سکتے ہیں۔
کیا پاکستان کے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں؟
معاشی ماہرین اس صورتِ حال کو اقتصادی اعتبار سے بے یقینی کی کیفیت قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر سیاسی عدم استحکام نے طوالت اختیار کی تو پاکستان سری لنکا جیسی حالات کا شکار ہوسکتا ہے۔
ماہر معیشت فرخ سلیم کہتے ہیں کہ اسٹاک ایکسچینج اور روپے کی قدر میں گراوٹ اشاریے ہیں جو کہ بیماری کی علامات کو ظاہر کرتے ہیں لیکن بیماری کی وجوہات کی تشخیص ہونا ضروری ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ مالی سال میں شرح ترقی 6 فی صد رہنے کے باوجود ملک تیزی سے سری لنکا جیسے حالات سے دوچار ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال میں پاکستان کو 18 ارب ڈالر کے بیرونی قرض کی ادائیگی کرنی ہے جب کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی اسی کے قریب رہے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ روان ہفتے میں فری فال انداز میں اسٹاک مارکیٹ اور روپے کی گرتی ہوئی قدر کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان سری لنکا والی صورتِ حال کی جانب بڑھ رہا ہے۔
سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں کہ حالیہ دونوں میں پاکستان کی معاشی گراوٹ متعدد وجوہات کی بنا پر ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ امریکہ میں شرح سود کے بڑھنے سے پوری دنیا میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا ہے اور اسی بنا پر روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کہا کہ عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمت دوبارہ بڑھ گئی ہے اور فی بیرل قیمت سو ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
سلمان شاہ نے کہا کہ اگرچہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض فراہمی کے پروگرام کو بحال کردیا ہےتاہم اس کی عالمی ادارے کے بورڈ سے منظوری ابھی باقی ہے جس کے باعث پاکستان کو ابھی تک ڈالر کی فراہمی نہیں ہوسکی ہے اور مالیاتی مارکیٹ میں ابہام باقی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اگر آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد کرتا رہا اور دوست ممالک کی معاونت کے ساتھ عالمی مارکیٹ میں کام کرتا رہا تو دیوالیہ ہونے سے بچ جائے گا۔
کیا آئی ایم ایف پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچائے گا؟
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کے ساتھ قرض پروگرام کی بحالی کا اعلان کیا تھا تاہم آئی ایم ایف بورڈ سے اس کی منظوری ہونا ابھی باقی ہے۔
فچ کی جانب سے آئی ایم ایف کے پاکستان کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ پر کہا گیا ہے کہ اس پر عمل درآمد کے حوالے سے سوالات ہیں جس کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ ذخائر پر دباؤ ہے۔
فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ آئی ایم ایف پروگرام کے باوجود ملکی معیشت پر اعتماد کا اظہار نہیں کر رہی ہے اور عالمی سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کے جاری کردہ یورو بانڈ پر 34 فی صد شرح سود کا رجحان یہ بتاتا ہے کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام میں ہوتے ہوئے ملک دیوالیہ نہیں ہوتا لیکن پروگرام کی بحالی کے باوجود پاکستان کے معاشی معاملات بہتر ہونے کی بجائے خراب ہو رہے ہیں۔
فرخ سلیم نے کہا کہ موجودہ توانائی کے عالمی بحران کی صورتِ حال میں آئی ایم ایف کا پاکستان کے ساتھ رویہ مناسب نہیں ہے اور اسی شرائط میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے جو کہ معاشی مشکلات اور سیاسی بے یقینی کے شکار ملک کے لیے اس پر عمل درآمد کو مشکل بنا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فنچ کی رپورٹ بھی بتارہی ہے کہ پاکستان میں ڈالر کے ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے جب کی بیرونی ادائیگیوں اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا دباؤ بھی بدستور موجود ہے۔
سلمان شاہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی زیادہ تر شرائط مکمل کردی ہیں اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ عالمی ادارے کا بورڈ اس معاہدے کی منطوری نہ دے۔
'نئے انتخابات ہی واحد حل ہے'
سلمان شاہ کہتے ہیں کی ملکی معاشی صورت حال کے حل کا بہتر راستہ عام انتخابات ہیں جس کے نتیجے میں آنے والی نئی حکومت عوامی مینڈیٹ کے ساتھ معاشی پالیسیوں پر عملدرآمد کے نتیجے استحکام لاسکتی ہے۔
سلمان شاہ کہتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام بہت زیادہ ہے ج اور استحکام اسی صورت ہوسکے گا جب سیاسی تناؤ میں کمی واقع ہوگی جس کا بہترین راستہ انتخابات ہی دکھائی دیتے ہیں۔