کراچی —
دنیا کو نئی شکل اور نئی سوچ کے زاویئے دینے میں جہاں دنیا بھر کے ممالک سے تعلق رکھنےوالے 50 طالبعلموں کا چناؤ کیا گیا ہے انہی میں پاکستانی طالب علم عمر انور جہانگیر بھی ہیں جنھوں نے نہایت کم عمری میں ہی اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کے باعث عالمی اقتصادی فورم کے گروپ کا حصہ بننے کا اعزاز اپنے نام کرلیا ہے۔
برطانوی اخبار ' ٹیلی گراف' کے مطابق عالمی اقتصادی فورم میں 21 سالہ پاکستانی طالب علم عمر انور جہانگیر دنیا بھر سے منتخب کئےجانےوالے 50 طالبعلموں میں سب سے کم عمر ترین مندوب ہیں۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی کم عمر اور پاکستانی طالب علم 'گلوبل شیپر' کا حصہ بنا ہو۔
عالمی اقتصادی فورم دنیا کو نئی شکل اور نئے زاویئے اور سوچ دینے کیلئے مختلف ممالک سے 50 طالبعلموں کا انتخاب کرتا ہے۔ مختلف ممالک سے چنے گئے افراد پر مشتمل اس گروپ کو ' گلوبل شیپر' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
برطانوی اخبار کو دئےگئے ایک انٹرویو میں عمر انور کا کہنا ہے کہ، ’میں چھوٹی عمر سے ہی لوگوں کی مدد کرنا چاہتا تھا‘۔
وہ کہتے ہیں کہ، ’اگر آپکو لوگوں کی مدد کرنی ہے تو آپ کو ابھی ہی کرنی ہوگی کیونکہ اگر اب آپ نے لوگوں کو مدد فراہم نہیں کی تو مستقبل میں آپ مدد کو ٹالنے کیلئے وجوہات کی تلاش کرتے رہتے ہیں‘۔
اپنے فلاحی کاموں کے بارے میں عمر کا کہنا ہے کہ، ’مجھے بہت سے لوگوں نے کہا کہ عمر یہ تم کیا کر رہے ہو؟ تم صرف اپنا وقت ضایع کررہے ہو اور اپنا کیرئر تباہ کررہے ہو‘۔
انھوں نے بتایا کہ یہ سب کرنے کیلئے میں نے سخت مشکلات کا سامنا کیا اور اپنی زندگی میں کئی بڑے رسک بھی لئے۔
عالمی اقتصادی فورم میں کم عمر گلوبل شیپر ہونےکے اعزاز کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ، ’عالمی اقتصادی فورم میں کم عمری کوئی رکاوٹ نہیں، یہاں سب کو ایک میز پر بیٹھ کر اپنی اپنی بات کہنے کا موقع ملتا ہے اور ہر ایک کو توجہ سے سناجاتا ہے‘۔
پاکستانی طالبعلم عمر جہانگیر 'طب' کے شعبے کے طالب علم ہیں جو اپنے ساتھی نوجوان طالبعلموں کے ساتھ مل کر پاکستان کے عوام کو طبی امداد کی فراہمی کیلئے 'بحریہ میڈکس' نامی ایک فلاحی تنظیم چلارہے ہیں۔
برطانوی اخبار ' ٹیلی گراف' کے مطابق عالمی اقتصادی فورم میں 21 سالہ پاکستانی طالب علم عمر انور جہانگیر دنیا بھر سے منتخب کئےجانےوالے 50 طالبعلموں میں سب سے کم عمر ترین مندوب ہیں۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی کم عمر اور پاکستانی طالب علم 'گلوبل شیپر' کا حصہ بنا ہو۔
عالمی اقتصادی فورم دنیا کو نئی شکل اور نئے زاویئے اور سوچ دینے کیلئے مختلف ممالک سے 50 طالبعلموں کا انتخاب کرتا ہے۔ مختلف ممالک سے چنے گئے افراد پر مشتمل اس گروپ کو ' گلوبل شیپر' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
برطانوی اخبار کو دئےگئے ایک انٹرویو میں عمر انور کا کہنا ہے کہ، ’میں چھوٹی عمر سے ہی لوگوں کی مدد کرنا چاہتا تھا‘۔
وہ کہتے ہیں کہ، ’اگر آپکو لوگوں کی مدد کرنی ہے تو آپ کو ابھی ہی کرنی ہوگی کیونکہ اگر اب آپ نے لوگوں کو مدد فراہم نہیں کی تو مستقبل میں آپ مدد کو ٹالنے کیلئے وجوہات کی تلاش کرتے رہتے ہیں‘۔
اپنے فلاحی کاموں کے بارے میں عمر کا کہنا ہے کہ، ’مجھے بہت سے لوگوں نے کہا کہ عمر یہ تم کیا کر رہے ہو؟ تم صرف اپنا وقت ضایع کررہے ہو اور اپنا کیرئر تباہ کررہے ہو‘۔
انھوں نے بتایا کہ یہ سب کرنے کیلئے میں نے سخت مشکلات کا سامنا کیا اور اپنی زندگی میں کئی بڑے رسک بھی لئے۔
عالمی اقتصادی فورم میں کم عمر گلوبل شیپر ہونےکے اعزاز کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ، ’عالمی اقتصادی فورم میں کم عمری کوئی رکاوٹ نہیں، یہاں سب کو ایک میز پر بیٹھ کر اپنی اپنی بات کہنے کا موقع ملتا ہے اور ہر ایک کو توجہ سے سناجاتا ہے‘۔
پاکستانی طالبعلم عمر جہانگیر 'طب' کے شعبے کے طالب علم ہیں جو اپنے ساتھی نوجوان طالبعلموں کے ساتھ مل کر پاکستان کے عوام کو طبی امداد کی فراہمی کیلئے 'بحریہ میڈکس' نامی ایک فلاحی تنظیم چلارہے ہیں۔