کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نےگزشتہ کئی ماہ سے جاری جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اور اپنے جنگجوؤں کو ملک بھر میں حملےشروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس اعلان کے بعد پاکستان اور بالخصوص صوبۂ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
ٹی ٹی پی نے پیر کو حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کالعدم شدت پسند تنظیم نے یہ اعلان اس روز کیا جب ملک کے دیگر علاقوں کے طرح خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں انسدادِ پولیو مہم بھی شروع ہو گئی تھی۔تاہم یہ اعلان سامنے آتے ہی مہم کے آغاز کے چند گھنٹوں بعد ہی حکام نے جنوبی ضلع لکی مروت میں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا سلسلہ معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
کالعدم تنظیم کے عہدے دار مفتی مزاحم کے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ حال ہی میں بنوں کے ضلع لکی مروت سمیت مختلف علاقوں میں عسکری اداروں کی طرف سے تنظیم کے خلاف مسلسل آپریشنز ہو رہے ہیں اور حملوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
ٹی ٹی پی نے اپنے بیان میں جنگجوؤں کو ’ملک بھر میں جہاں بھی رسائی ہوسکتی ہو‘ وہاں حملے کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی نے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ ہونے سے روکنے کے لیے صبر سے کام لیا لیکن فوج اور خفیہ ادارے باز نہ آئے اور حملے جاری رکھے۔بیان میں اعلان کیا گیا ہے کہ لہذا اب ملک بھر میں انتقامی حملے بھی شروع ہوں گے۔ ـ
’امن و امان کا دارومدار نئی فوجی قیادت کی ترجیحات پر ہے‘
کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے جنگ بندی ختم کرنا کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب پاکستان کی فوجی کمانڈ تبدیل ہورہی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی سبکدوشی کے بعد فوج کے نئے سربراہ جنر ل عاصم منیر اپنی ذمے داریاں سنبھال چکے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ اور ریٹائرڈ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس سید اختر علی شاہ کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کا اعلان خیبر پختونخوا کے امن و امان کے لیے خطرناک ہے۔ اب ان کی پُرتشدد کارروائیوں کا پہلا ہدف یہی صوبہ ہوگا اور اس پر قابو پانے کا دارومدار نئی عسکری قیادت کی حکمت عملی اور ترجیحات پر ہوگا۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت در اصل پاکستانی طالبان کے لیے بھی تقویت کا باعث ہے۔
سید اختر علی شاہ نے یاد دلایا کہ حکومتِ پاکستان کے مطالبات کے باوجود افغان طالبان نے پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائی کے بجائے مذاکرات میں کردار ادا کرنے کو ترجیح دی تھی۔
’فردِ واحد کے بدلنے سے پالیسیاں نہیں بدلتیں‘
تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے میں اس وقت کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
سرحد پار افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد افغان طالبان کے موثر گروپ حقانی نیٹ ورک کے ذریعے حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان جنوبی وزیرستان کے قبائلی رہنماؤں پر مشتمل ایک جرگہ سے مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔
اس جرگے میں جمیعت العلماء اسلام ف کے سابق سینیٹر مولانا صالح شاہ اور بیت اللہ محسود کے سسر اکرام الدین محسود نمایاں تھے۔ ان رابطوں کے نتیجے میں یکم نومبر 2021 سے جنگ بندی کا پہلا معاہدہ ہوا تھا لیکن طالبان نے نو دسمبر کو یہ معاہدہ ختم کرکے خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں پر تشدد کارروائیاں تیز کر دی تھیں۔
ان کارروائیوں کے بعد پشاور کے اس وقت کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے جنوبی وزیرستان کے سرکردہ قبائلی رہنماؤں کے توسط سے اپریل 2022 کے وسط میں دوبارہ حقانی نیٹ ورک اور بالخصوص افغانستان میں طالبان حکومت کیے وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی کی ثالثی میں دوسرے دور کے خفیہ مذاکرات کا آغاز کیا۔ ان رابطوں کے بعد طالبان نے یکم مئی 2022 سے پہلے 10 دن اور پھر پانچ دن کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا۔
طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے دوسرے پانچ دن کے اختتام پر پشاور کے سابق کور کمانڈر ایک اعلی سطحی وفد لے کر رواں برس 16 مئی کو کابل پہنچ گئے۔ اس دوران ان کی قیادت میں 13 رکنی وفد نے کابل میں طالبان کے ساتھ دو دن تک مذاکرات کیے اور جنگ بندی میں مزید 15 دن تک توسیع ہوگئی ۔
اس دوران مختلف قبائلی علاقوں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں پر مشتمل ایک50 رکنی وفد کابل پہنچ گیا ۔ اس وفد میں خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلی کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف بھی موجود تھے اور دو دن کے مذاکرات کے بعد طالبان نے جنگ بندی کے معاہدے میں غیر معینہ مدت کے لیے توسیع کا اعلان کیا تھا۔
جنگ بندی میں غیر معینہ مدت تک توسیع کے بعد لیفٹننٹ فیض حمید کو پشاور کور سے متنقل کرکے بہاولپور کا کورکمانڈر بنادیا گیا تھا۔ اس تبدیلی کے طالبان سے متعلق حکمت عملی پر اثرات کے بارے میں سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ کا کہنا ہے کہ ریاستی پالیسیاں ریاست کے مفادات اور اہداف کو مد نظر رکھتے ہوئی بنائی جاتی ہیں فرد واحد ان پر اثر انداز نہیں ہوتا۔
تاہم ان کے نزدیک ریاستی پالیسیوں پر عمل در آمد میں اہم مناصب پر کام کرنے والوں کے طریقہ کار یا اسٹائل مختلف ہونے سے بھی تبدیلیاں آتی ہیں۔
فوجی قیادت میں تبدیلی کے ساتھ ٹی ٹی پی سے مذاکراتی عمل آگے بڑھانے والے لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کی اطلاعات بھی گردش میں ہیں۔
طالبان کے مطالبات کیا تھے؟
بیرسٹرمحمد علی سیف کی سربراہی میں50رکنی وفد کے ساتھ یکم جون 2022 کو مذاکرات شروع کرتے وقت طالبان نے تحریری طور پر اپنے مطالبات پیش کیے تھے۔
ان مطالبات یا شرائط میں سابقہ قبائلی علاقوں کی سابقہ حیثیت کی بحالی، پاک افغان سرحد سے مسلح افواج کا مکمل انخلا یا واپسی، ملاکنڈ ڈویژن کے بعض اضلاع سمیت تمام تر سرحدی علاقوں میں طالبان کو ہر قسم کے قانونی اور سیکیورٹی قوانین سے استثنی ، ان علاقوں میں طالبان کے لیے قابلِ قبول شرعی نظام کا نفاذ اور ملک بھر میں طالبان کو مسلح نقل و حرکت کی آزادی جیسے نکات شامل تھے۔
گو کہ بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ ان شرائط میں سے بہت سی اس بنیاد پر رد کر دی گئی تھیں کہ پاکستان کے تمام ریاستی اداروں کو آئینی تحفظ حاصل ہے اور اس میں ترمیم صرف پارلیمنٹ کا کام ہے تاھم اس کے علاوہ دیگر نکات پر بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔
مگر آٹھ اگست 2022 کو وادیٔ سوات کے تحصیل مٹہ میں طالبان کے منظر عام پر آنے اور سرگرمیاں شروع کرتے وقت طالبان نے ویڈیو پیغام میں لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کا نام لے کر کہا تھا کہ انہوں نے طالبان کے تمام مطالبات مان لیے ہیں اور وہ مطالبات تسلیم ہونے کے بعد واپس آئے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے خلاف احتجاج
ضلع سوات کی تحصیل مٹہ میں طالبان نے منظرِ عام پر آنے کے فورا بعد دو اعلی فوجی اور ایک پولیس عہدے دار سمیت چار سیکیورٹی اہل کاروں کو اغواء کرکے یرغمال بنایا اور اس کے بعد دہشت گردی کے یکے بعد دیگرے دو تین واقعات کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ ان کارروائیوں کے بعد خیبر پختونخوا کی تمام تر سیاسی سماجی اور کاروباری تنظیمیں دہشت گردی کے خلاف اور قیام امن کے نعرے پر متحد ہوگئیں
اس سلسلے میں احتجاجی دھرنوں، مظاہروں اور امن مارچ کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ان پر امن سیاسی جلسوں جلوسوں کے نتیجے میں ایک طرف طالبان کے زیادہ تر جنگجو واپس افغانستان چلے گئے جبکہ حکومتی اداروں میں ان کے ساتھ مبینہ طور پر عہد و پیمان کرنے والے بھی خاموش ہوگئے ہیں۔
پولیو مہم میں تعطل
خیبرپختونخوا میں انسداد ِپولیو مہم کے ہنگامی مرکز کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سیکیورٹی وجوہ کی بنیاد پر ڈپٹی کمشنر لکی مروت فضل اکبر نے تاحکمِ ثانی پولیو مہم ملتوی کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لکی مروت سے ملحقہ دو دیگر اضلاع بنوں اور شمالی وزیرستان میں یہ مہم جاری رہے گی۔
لکی مروت کے مختلف علاقوں میں چند روز پہلے نامعلوم عسکریت پسندوں نے پولیس تھانوں اور چوکیوں پر متعدد حملے کیے تھے جس کے جواب میں ان علاقوں میں سیکیورٹی فورسز عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہیں۔