پاکستان فوج کے سبکدوش ہونے والے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا چھ سالہ دور مختلف تغیرات پر مبنی دور تھا جس کے دوران دو حکومتیں تبدیل ہوئیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے ان پر تنقید کا سلسلہ آخری دن تک جاری رہا۔
سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے نومبر 2016 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف مقرر کیا تھا لیکن سات ماہ بعد ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے نواز شریف وزارتِ عظمیٰ سے الگ ہوئے تو فوج پر تنقید ہونا شروع ہو گئی۔
نواز شریف کی نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلے میں اہم کردار ان رپورٹس کا تھا جو پاناما کیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں شامل آئی ایس آئی اور دیگر اداروں کی رپورٹس کی بنیاد پر تیار کی گئی تھیں۔
سال 2018 کے عام انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن کے نظام 'آرٹی ایس' کے بیٹھ جانے سے لے کر عمران خان کی حکومت کے قیام اور پھر نئی بننے والی حکومت کو 'سلیکٹڈ' کہنے تک کے بیانیے پر فوج کے کردار پر تبصرے ہوئے۔
جنرل باجوہ کے دور میں 'باجوہ ڈاکٹرائن' کے نام سے اصطلاح زبان زدِ عام رہی جسے ملک میں استحکام اور امن کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا،
جنرل باجوہ کے دور میں ہی بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر مبینہ جارحیت اور پاکستان کے اس پر ردِعمل، کرونا وبا کے دوران فوج کے کردار، افغان طالبان سے مذاکرات، افغان سرحد پر باڑ لگانے سمیت فوجی سفارت کاری اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے موقع پر جنرل باجوہ کی قیادت میں فوج کے کردار کو جہاں سراہا گیا وہیں سال 2022 کے دوران فوج خصوصاً جنرل باجوہ تنقید کی زد میں رہے۔
تحریک عدم اعتماد، سائفر، پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے جنرل باجوہ اور سینئر قیادت کو القابات سے نوازنے کا سلسلہ اور 'ففتھ جنریشن وار فئیر' سمیت کئی ایسے معاملات ہیں جو جنرل باجوہ کے دور میں معروف ہوئے۔ ان تمام چیزوں نے پاکستان کی سیاست، معیشت اور عالمی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جنرل باجوہ نے مشکل حالات کے باوجود بہت سے شعبوں میں بہتر کردار ادا کیا ہے۔
'جنرل باجوہ فوج کو سیاسی بنا کرجارہے ہیں'
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز جنرل باجوہ کی چھ سالہ مدتِ ملازمت کے بارے میں کہتے ہیں ان کا دور اس لحاظ سے مشکل رہا ہے کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد پاناما آگیا تھا اور اس کے بعد الیکشن ہوئے تو منتخب حکومت کو 'سلیکٹڈ' حکومت کہہ دیا گیا۔
ان کے بقول، "جنرل باجوہ کے دور میں فوج کے لیے تربیت کا معیار بہتر ہواجس کی وجہ سے 2019 میں جب بھارت کی طرف سے جارحیت ہوئی تو پاکستان فوج نے اس کا بھرپور جواب دیا۔ اس کی وجہ سے پاکستان کی عزت میں اضافہ ہوا۔
لیکن سینئر دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کہتی ہیں جنرل باجوہ فوج کو ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ سیاسی بنا کرجارہے ہیں۔ ان کے خیال میں جنرل باجوہ پر جس قدر تنقید کی گئی ہے اتنی تنقید تو ماضی میں جنرل یحییٰ پر بھی نہیں ہوئی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ ایک ایسے جنرل تھے جو دباؤ میں اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ جاتے تھے۔ ان کے سامنے جب سول سوسائٹی نے لاپتا افراد کا معاملہ اٹھایا اور آئی ایس پی آر میڈیا پر دباؤ ڈال رہا تھا تو انہوں نے اپنی پالیسی تبدیل کرلی۔ اور اس فیصلے کی فوج نے بھاری قیمت ادا کی۔
باجوہ ڈاکٹرائن
اس اصطلاح کا استعمال پہلی بار 2018 میں فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے سابق ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ایک انٹرویو کے دوران کیا تھا۔
بعض دفاعی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگرچہ یہ اصطلاح سرکاری نوعیت کی نہیں لیکن اس سے مراد جنرل باجوہ کا ملک میں امن کی صورتِ حال برقرار رکھنے کی کوششیں، سویلین اور ملٹری تعلقات اور بین الاقوامی محاذ پر پاکستان کے سفارتی تعلقات بہتر کرنے میں جنرل باجوہ کی معاونت ہے۔
تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کہتے ہیں 'باجوہ ڈاکٹرائن' ایک منصوبے کا نام تھا جس کے تحت بیرونِ ملک سے پاکستان میں ہونے والی مداخلت اور سازشوں کو روکنا تھا اور جنرل باجوہ اس میں بہت حد تک کامیاب رہے۔
ان کے خیال میں جنرل باجوہ نے سفارتی محاذ کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی پوری طرح سپورٹ کیا۔
'باجوہ ڈاکٹرائن' کے بارے میں تجزیہ کار ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ اس ڈاکٹرائن کے تحت افغانستان میں جو کچھ ہوا وہ پلان کے مطابق تھا اور پاکستان نے عالمی سوچ کے مطابق اس میں اپنا کردار ادا کیا۔ جنرل باجوہ کی ترجیحات میں یہ چیز شامل تھی کہ سرحدوں پر کشیدگی کو کم کیا جائے اور اپنے اندرونی خلفشار کو کنٹرول کیا جائے۔ جنرل باجوہ اس میں کافی حد تک کامیاب رہے۔
ففتھ جنریشن وار فئیر
جنرل باجوہ کے دور میں سب سے زیادہ تذکرہ 'ففتھ جنریشن وار فئیر 'کا رہا۔ اس وار فئیر کا مطلب کیا ہے؟ اس بارے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ عوام اور ریاست کے درمیان اعتماد کو ختم کرنے کو 'ففتھ جنریشن وار فئیر' کا نام دیا گیا۔
اس اصطلاح کا ذکر سب سے پہلے پاکستان فوج کے سابق ترجمان لیفٹننٹ جنرل آصف غفور نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران کیا تھا اور اس موقع پر ایک چارٹ دکھایا تھا جس میں مختلف صحافیوں کی تصاویر موجود تھیں۔ ان کے بقول یہ افراد ریاست اور عوام کے درمیان نفرت پیدا کررہے تھے۔
اس بارے میں دفاعی تجزیہ کار ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ ففتھ جنریشن وار فئیر کے معاملے میں جنرل باجوہ کے دور میں اندرونی و بیرونی خطرات یکجا ہوگئے۔ بلوچستان کی صورتِ حال، اندرونِ ملک سیاست کی صورتِ حال، یہ تمام وہ چیزیں تھیں جو ماضی میں الگ رہیں لیکن اس دور میں یہ سب ایک ساتھ سامنے آئیں۔
ان کے خیال میں 'ففتھ جنریشن وار فئیر' میں اگرچہ فوج نے کسی حد تک کامیابی حاصل کی لیکن اس سے فوج کو بھاری نقصان نھی اٹھانا پڑا۔
بریگیڈئیر (ر) حارث نواز کا خیال ہے کہ عمران خان کے دور کے آخری حصے میں 'ففتھ جنریشن وار فیئر' میں فوج کو بہت نقصان پہنچا اور اب نئے آرمی چیف سے توقع ہ کی جا رہی ہے کہ وہ اس نقصان کی تلافی کریں گے۔
فوج کا سیاست سے الگ ہونے کا فیصلہ
جنرل قمر جاوید باجوہ کا چھ سالہ دور اس سوال پر متنازع رہا ہے کہ وہ 'سیاسی انجینئرنگ' میں ملوث رہے ہیں اور بعد میں اس سے مکمل کنارہ کشی اختیار کی۔
سابق وزیرِ اعظم نواز شریف وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے برخواست کیے جانے کے بعد فوجی قیادت پر تنقید کرتے رہے ہیں اور انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ اور اس وقت کے آئی ایس آئی چیف لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کا نام لے کر ان پر تنقید کی۔
بعد ازاں اپریل 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان کی طرف سے لگاتار اسٹیبلشمنٹ پر الزامات عائد کیے گئے اور ان کے غیرسیاسی اور نیوٹرل ہونے پر تنقید کی گئی۔
سیاست میں عدم مداخلت کے بارے میں ماریہ سلطان نے کہا کہ یہ ایک بہت مشکل فیصلہ تھا کہ آپ عوامی سطح پر اس بات کو تسلیم کریں کہ آپ پہلے سیاست میں ملوث رہے اور اب آپ سیاست کا حصہ نہیں ہوں گے۔ اس ایک نکتے کی وجہ سے جنرل باجوہ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ فوج کے فیصلے پر سختی سے کاربند رہے۔
فوج کے سیاست سے الگ ہونے کے بیان سے متعلق ماریہ سلطان کہتی ہیں یہ ادارے کا فیصلہ ہے اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت اہم فیصلہ ہے۔
تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کے خیال میں غیرسیاسی ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی جنرل باجوہ نے کہا تھا کہ پاکستان فوج نے ایل این جی درآمد،ریکوڈک اور دوست ممالک سے امداد حاصل کرنے میں کردار ادا کیا اور مستقبل میں بھی وہ ایسا کرتے رہیں گے۔ یہ سب کچھ ایک اعتبار سے سیاسی عمل ہی ہے جس کے لیے وہ آگے بھی تیار ہیں۔
بریگیڈیئر (ر)حارث نواز کے خیال میں تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے جو کچھ ہوا اس پر جنرل باجوہ پر الزامات لگے۔درحقیقت اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو آگاہ کر چکی تھی کہ وہ اپنے ارکانِ اسمبلی کو سنبھالیں لیکن جب فوج نے سیاست سے کنارہ کشی کی تو تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوگئی۔
ان کے بقول عمران خان نے جنرل باجوہ کو میرجعفر ، نیوٹرلز اور دیگر القابات سے نوازنا شروع کیا تو فوج کے لیے یہ ایک مشکل مرحلہ تھا لیکن فوج کا ایک اصولی فیصلہ تھاجس پر وہ سختی سے کاربند رہی۔
جنرل باجوہ کی سب سے بڑی غلطی
جنرل باجوہ کے دور کے حوالے سے مختلف اعتراضات سامنے آتے رہے ہیں۔ بعض افراد ان کے سیاست میں کردار اور بعد میں غیرسیاسی ہونے کو بڑی غلطی سے تعبیر کرتے ہیں۔
تجزیہ کار ماریہ سلطان کہتی ہیں جنرل باجوہ کی سب سے بڑی غلطی ان کی مدت ملازمت میں توسیع تھی۔ ان کے بقول توسیع پروفیشنل ادارے میں مسائل پیدا کرتی ہے اور جنرل باجوہ کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے۔
جنرل باجوہ کی سب سے بڑی غلطی کے بارے میں بریگیڈئیر (ر)حارث نواز نے کہا کہ جنرل باجوہ نے سیاست میں فوج کے کردار سے کنارہ کشی کے فیصلے کی وجہ سے فوج کی بہت بدنامی ہوئی۔ کیوں کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد جنرل باجوہ کے خلاف باقاعدہ مہم چلنا شروع ہوئی جس سے نہ صرف فوج بلکہ ملک کو بھی بہت نقصان ہوا۔
بین الاقوامی تعلقات
جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے دور میں بین الاقوامی تعلقات میں بہت زیادہ نمایاں رہے ۔ بالخصوص دوست ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کے دورے کرتے رہے۔
سن 2018 میں عمران خان کی حکومت برسراقتدار آنے کے بعد انہوں نے کئی دوست ممالک کے دورے کیے اور ان دوروں میں حکومت کے لیے امداد اور مختلف مالی پیکجز حاصل کیے جن کا بعد میں حکومت نے اعلان کیا ۔
جنرل باجوہ نے چین کا دورہ کیا اور صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد پاکستان کے لیے مالی پیکج حاصل کیا۔ چین کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں ایک بڑی رکاوٹ سی پیک کی سیکیورٹی تھی جس کے لیے جنرل باجوہ نے فوج کے اندر ایک الگ یونٹ قائم کیا، جس کے ذمے پاکستان میں چینی حکام کی سیکیورٹی تھی۔
بلوچستان سمیت ملک میں جاری مختلف چینی منصوبوں کو جنرل باجوہ کی دی گئی فورس نے سیکیورٹی فراہم کی جس کی وجہ سے بعض حملے ہونے کے باوجود پاکستان اور چین کے تعلقات بگڑتے بنتے رہے۔
افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان حکومت کے قیام میں جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم کا اہم کردار تھا۔ اس معاملے پر امریکی حکام کے ساتھ اگرچہ تعلقات خراب ہوئے لیکن پاکستان میں اسے ایک بڑی کامیابی تصور کیا گیا۔ جنرل باجوہ نے اپنی مدت ملازمت کے آخر میں امریکہ کا دورہ بھی کیا۔